ہائی اسکول کوڑاسک میں آرمی کی موجودگی سے بچوں کا تعلیم متاثر | دوستین بلوچ

0
208

(نوٹ: دوستین بلوچ ایک طالب علم ہیں جو ہائی اسکول کوڑاسک میں پڑھتے ہیں۔ان کی یہ تحریر،ان کی تعلیم سے لگاؤکا احاطہ کرتی ہے لیکن عدم تحفظ کی وجہ سے اس کی تعلیم متاثر ہے۔انہوں نے اپنا یہ تحریر ہمیں بھیج دیا جو نوک پلک سنوارنے کے بعد شائع کیا جارہا ہے،ادارہ سنگر)

درس گاہیں وہ جگہے ہوتی ہیں جہاں طلبا اسی کے چت کے سائے تلے جوان ہوتی ہیں اور وہاں انہیں مہیا ہونی والی ماحول انکی شخصیات بنانے، نکھارنے اور علمی تربیت کا کردار نباتی ہیں۔انسانی شخصیت اسی عمر میں تشکیل پاتی ہیں،گھراوراسکول سے ملنے والی ہر حرکات و سکنات بچوں کی شخصیت بنا نے والی اینٹیں ہیں،یہ اینٹیں یہیں سے تراشے جاتے ہیں، مضبوط کیئے جاتے ہیں، رنگین کیئے جاتے ہیں، اگراسکول اور گھر کے ماحول میں ذراسی کوتاہی ہو تو معاملہ برعکس ہوگی اورنتائج یقینا منفی نکلیں گے۔

مقبوضہ بلوچستان کی موجودہ جنگی صورت حال سے پیدا ہونی والی منفی اثرات بلوچستان کے ہر بچوں میں پائے جاتے ہیں جن میں سر فہرست خوف و ہراس، عدم تحفظ،بے چینی، والدین کی بیروزگاری کی وجہ سے بھوک و افلاس، یہ سب وہ حالات ہیں جو بچوں کی نفسیات اور شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہو تے جارہے ہیں اور ہر محلہ،گاؤں،دیہات اور شہراسی مسئلے سے جونج رہا ہے۔

بلوچستان کے شہر خضدار سے ایک سو بیس کیلومیٹر دورمغرب کی جانب دس ہزار آبادی پر مشتمل گاؤں کوڑاسک واقع ہے۔ یہاں لوگوں کی گزر بسر مال مویشیوں اور زراعت پر مشتمل ہے مگر حالیہ چند سالوں کی قحط کی وجہ سے نہ زراعت رہی اور نہ مال مویشی، زندگی کی بنیادی ہر سہولت سے محروم کوڑاسک کی یہ انسانی آبادی میں ایک ہائی اسکول ہے جو 2018 سے پہلے اس کی تعداد 500 ہوا کرتی تھی۔

2018 سے پاکستانی فوج نے بلوچستان کے دوسرے اسکولوں کی طرح کوڑاسک ہائی اسکول کو بھی اپنے قبضے میں لیکر اپنامورچہ بنایا ہے۔ دس ہزار کی آبادی کا واحدبوائز ہائی اسکول ہے۔ لڑکیوں کیلئے ہائی اسکول نہ ہونی کی وجہ سے طالبات بھی پرائمری پاس کرکے اسی اسکول میں پڑھنے جایا کرتی تھیں مگر جب سے پاکستانی آرمی نے اسکول پر قبضہ جمایا ہے طالب علموں اور والدین کی جانب سے مختلف قسم کی شکایتیں آرہی ہیں۔

طلبا کا کہنا ہے کہ اسکول کے چت پر آرمی کے مسلح لوگوں سے نہ صرف وہ خوف زدہ ہیں بلکہ روزکلاس روم میں طالبات کے ڈسکوں پر اپنے کنٹکٹ نمبرز پرچی پر لکھ کر انہیں ان سے رابطہ کرنے کو کہتے ہیں۔فورسز اہلکاروں کی اس گھناؤنے حرکتوں سے عدم تحفظ کے باعث سب طالبات نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی ہے اور 800طلبا اور طالبات میں سے صرف 100طلبا مجبوراََ اس وقت موجود ہیں جو آئے روز اسکول کے باہر احتجاج پر بیٹھے ہیں اوران کامطالبہ ہے کہ اسکول سے آرمی کو نکال دیا جائے تاکہ وہ اپنی پڑھائی پرسکون ماحول میں جاری رکھ سکیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔

اب ذرادھیان دیجیئے کہ اس ماحول میں ایک بچے کی نفسیات پر کیا گزرتی ہوگی؟اسکول جہاں بچے پڑھنے آتے ہیں اور وہ فورسز اہلکاروں کی موجودگی سے عدم تحفظ اور ذہنی کوفت کا شکار ہیں۔ ایک بچے کو مثبت شخصیت کے مالک انسان ہونے میں پر سکون ومحفوظ ماحول اورمثبت و تعمیری تعلیم کی ضرورت ہوگی لیکن پاکستان آرمی کی موجودگی،تشدد ونفسیاتی جبرسے بلا ایک بچہ کیسے پروان چڑتا ہے اسکا اندازہ کوڑاسک بشمول بلوچستان کے دیگر طلبا سے زیادہ کون بہتر جانتا ہے۔

کوڈاسک ہائی اسکول کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی بار اپنامسئلہ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ ضلعی آفسران تک پہنچایا ہے مگر آفیسران بشمول ہیڈماسٹر کوڑاسک نہ ہماری باتیں سنتے ہیں اور نہ ہمیں مذکورہ زیادتی سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ہر وقت ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔

لہذا ہماری انسان دوست تنظیموں، طلبا تنظیموں، سماجی کارکنوں، اور خاص کر وکلا برادری سے بھی درخواست ہے کہ قانونی طور پر وہ اپنی ذمہ داری برو کار لاکر ہماری مدد کریں اور ہ اسکول کو آرمی سے خالی کرا کر ہمیں پڑھنے دیا جائے جوہمارا بنیادی حق ہے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here