بلوچ قوم کا نسلی پسِ منظر – تحریر: ڈاکٹرجلال بلوچ

0
642

بلوچ قوم کے نسلی پس منظر کے حوالے سے بہت سے زیادہ اختلاف پایہ جاتا ہے، اغیار کے ساتھ ساتھ بلوچ دانشور بھی کسی ایک نقطہ پہ متفق نہیں۔ اس کا بنیادی سبب دراصل بلوچ قوم کے پاس ماضی میں خود کی تحریر کردہ موادماسوائے ”رند ی“ شاعری کے اور کچھ نہیں،رندی شاعری بھی ایک وقت میں تحریر نہیں ہوا بلکہ یہ صدیوں پہ محیط داستان ہے جو سینہ بہ سینہ ہر آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتا گیا ہے۔ اگر ہم ابولقاسم فردوسی کی شاعری کا مجموعہ ”شاہنامہ“، تواکینہ قاضی کی کتاب ”سائرس اعظم“، یونانی مورخین،بعض عرب سیاہ اور ہیروڈوٹس کا باریک سے مطالعہ کریں تو انہوں نے قریباً اس پورے خطے میں جہاں آج بھی بلوچ آباد ہیں نہ صرف ان (بلوچ قوم) کا تذکرہ کیا ہے بلکہ عسکری میدان میں بلوچوں کی شجاعت کی داد دیتے نظرآتے ہیں۔رہی بات بلوچ نسل کی تو اس ضمن میں ان مورخین اور سیاحوں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں مدفون ٹیلے(دمب) جونہ صرف ہمیں اس خطہ زمین میں ہرگام پہ ملتے ہیں بلکہ ماہرین آثار قدیمہ کی تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ ایشیاء کی پہلی تہذیب کا سہرا بھی بلوچ خطے کو ہی جاتا ہے جہاں مہرگڑھ کے مقام پہ مہذب زندگی کی شروعات ہوئی۔ مہرگڑھ، شاہی تمپ،کوئٹہ کے آثار، خاران اور خضدارکے آثار،نال، مشکے اور بیلہ کی قدیم تباہ شدہ بستیاں اس حقیقت کو اور زیادہ مدلل بناتی ہیں کہ انسان نے ابتدائی بستیوں کا آغاز ہی بلوچستان کے خطے سے کیا تھااور یہیں سے انسانی معاشرتی نظام اور تہذیب کی بنیاد ڈالی تھی۔بلوچستان کی قدیم بستیاں حجری دور سے تعلق رکھتی ہیں۔جبکہ اس وقت تک کسی بڑی سلطنت کا وجود تک نہ تھا۔مہرگڑھ کی بستی دنیا کی قدیم ترین بستی شمار کی جاتی ہے جس کی قدامت لگ بھگ 11000سال ہے۔1۔ مہرگڑھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں دریافت ہونے والے قدیم بستیوں کے وہ باشندے یقیناً ہمارے(بلوچوں کے) آباؤ اجداد ہی تھے جنہوں نے نہ صرف انسانی تہذیب کی داغ بیل ڈال دی بلکہ دنیا کو تہذیب سے آشناء بھی کیا۔

لہذا ان آثار پہ تحقیق کریں تو بلوچ کی نسلی تاریخ کے حوالے سے وہ تمام نظریات جن میں بلوچ قوم کا رشتہ دیگر اقوام یا نسلوں سے جوڑا جاتا ہے وہ غلط ثابت ہونگے۔ بطور تاریخ کے طالب علم جب ہم بلوچ قوم پہ تحریر کردہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بعض دلائل کافی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں جیسے کوئی انہیں رندی شاعری کو سمجھے بغیر امیر حمزہ ؓ کی اولاد قرار دیتا ہے حالانکہ رندی شاعری میں جس میر حمزہ کا ذکر ہے وہ سیستان کا مشہور جنگجو بلوچ سردار تھا جوبنوعباس کی خلافت کے دوران عربوں کے ساتھ تین دہائیوں تک جنگوں میں مصروف رہا اور ایک روایت کے مطابق انہوں نے عبداللہ کے نام سے امیرالمومنین کا لقب اختیار کرکے اپنی خلافت کا باقاعدہ اعلان بھی کیا۔ممکن ہے کہ ان جنگوں میں رندوں کے آباؤاجداد شامل ہوں اور میرحمزہ کی دیدہ دلیری اور اس کی رہنمائی کی وجہ سے خود کو اس کی اولاد قرار دیتے ہوں یا عربوں کی خلافت کے دوران خود پہ سہنے والے مظالم کی وجہ سے انہوں نے بابامیرحمزہ بلوچ کو اپنا جدامجد کہا کیوں کہ میرحمزہ آذرک یا میرحمزہ سیستانی نے عربوں کے خلاف ہی جدوجہد کیا۔الغرض وجہ جو بھی ہو تحقیق اور مشاہدات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رندی شاعری میں بابامیرحمزہ آذرک کا ہی ذکر ہے۔ میر گل خان نصیر،ابن خلدون اور ہتورام بلوچوں کی نسلی پسِ منظر کو پس پشت ڈال کرانہیں بادیہ نشین کے لقب سے یاد کرتے ہیں، آغا نصیر احمدزئی اور مرحوم نادر قمبرانی صاحب کردی النسل نظریے کے حامی،احمد یار خان عرب، پوٹینگر،ترکمان نسل، ڈیمس ایک جانب بلوچوں کو مکران کے قدیم باشندوں کے طور پہ دیکھتا ہے جبکہ دوسری جانب رندوں کو عرب گردانتاہے،، نواب اکبرخان بگٹی بلوچوں کو آرین نسل سے جوڑتا ہے۔سردار گیشکوری بلوچوں کی وجہ تسمیہ بل دیوتا کو قرار دیتا ہے،المقدسی عربوں کی آمد کے وقت مکران میں بلوچوں کی موجودگی کی شہادت دیتا ہے، جبکہ فردوسی بلوچوں کوسیاؤش کے دور میں مید (آرین) فوج میں دیکھنے کے ساتھ سیاؤش کے بیٹے کیخسرو کے زمانے میں بولان(راہ ہند) تک سکونت پذیر ظاہر کرنے ساتھ انہیں حرب و ضرب کا ماہر کہتا ہے۔ جنگوں میں ان کی ماہرانہ دسترس اس جانب بھی دلیل ہے کہ وہ اس خطے میں کسی حد تک منظم انداز میں زندگی بسر کررہے تھے۔ اور ان کی یہ جنگی ہنر انہیں ایرانی فوج میں جگہ بنانے کی وجہ بنی جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں بلوچ سراوان و جھالاوان اور مکران سے بھی مغرب کی جانب بھی کوچ کرگئے۔ ناروئیوں کا ذکر تو بہت ساری کتابوں میں ملتا ہے، ان کے جنگی کارنامے اور اس خطہ خزر(نارو، کیسپین) میں ان کی منظم زندگی بھی زبان زد عام ہے۔ان کے علاوہ مشہور یونانی سیاہ اور بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے بھی بعض بلوچ قبائل کا ذکر کیا ہے جن میں ”موسی نویسی“

(Mossynoeci)

(مامسینی، محمدحسنی)، پاریکانی(پرکانی، پرکانڑیں)مائشی (ممشئی یا محمد شئی) ساسپیری(سرپرہ) کاسپین(ہیرکانی، بحرہیرکانیہ۔ کیسپین کے رہنے والے)تیارینی(جن کے باقیات آج تورانزئی قبیلے کی شکل میں مستونگ میں آباد ہیں)، جس طرح کاسپین یا کاسپیری کا ذکر کیا ہے اسی طرح ہیرکانیوں کا ذکر بھی ہروڈوٹس کی کتاب میں موجود ہے یعنی انہوں نے بلوچی نام (ہیرکانیہ) کو بھی اپنی پہچان بنالیا تھا، وغیرہ۔ ہیروڈوٹس ان سب قبائل کو اسی خطے میں آباد ظاہر کرتا ہے۔جیسے وہ پاریکانیوں کو باکتریوں کے ساتھ بھی جنگی صفوں میں دکھاتا ہے باکتری (باختری)سے مراد افغانستان کے باشندے لیکن اس میں پورا افغان خطہ شامل نہیں کیوں کہ ہیروڈوٹس گنداریوں یعنی قندھاریوں کو الگ شناخت دیتا ہے۔

The Utians and Mycians and Paricanians were equpipped like the Pactyes.2
ترجمہ:۔ یوتی(ہوت) ومائشی(محمدشئی یا مامشئی) اور پاریکانی(پرکانڑیں) سب پاکتیوں (افغانوں) کے سے انداز میں مسلح تھے۔
انہی قبائل کی طرح ہیرکانیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہے کہ


The Hyrcanians were armed like the persians their leader was Megapanus, who was afterward the governor of Babylon..3
ترجمہ:۔ہیرکانی(کیسپین کے قبائل) فارسیوں کی طرح مسلح تھے،ان کا رہنما وہی میگاپانس تھا جو آنے والے دنوں میں بابل کا گورنر بنا۔
ہیرکانی بلوچوں کا سردارمیگابانس کا حکومتی نظام میں شامل ہونے سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ اس دور میں بلوچ قوم کے فرزند نہ صرف عسکری میدان میں اپنا لوہا منوارے تھے بلکہ وہ ہخامنشی حکومتی نظام کا بھی باقاعدہ حصہ تھے۔ جبکہ ماکرونیوں اور موسی نوسیوں (مامسنی) کی منظر کشی ایک دستے میں کرتا ہے۔اس حوالے سے بابائے تاریخ ہیروڈوٹس رقم کرتا ہے کہماکرونیوں اور موسی نوشیوں کا سربراہ ارتائی کینز تھا۔4۔
اگر دیکھیں تو جہاں مکران کا حدود اختتام پذیر ہوتاہے وہاں مامسنی یا محمدحسنی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے وہ چاہے ایران کے زیرقبضہ بلوچستان کے علاقے ہوں یا پاکستانی مقبوضہ بلوچستان۔ اس کے علاوہ ہیروڈوٹس بلوچ قوم کا میدان جنگ میں نقشہ کچھ اس طرح کھینچتا ہے کہ۔ موشیاؤں نے لکڑی کے خود پہنے ہوئے تھے اور چھوٹے سائز کی ڈھالیں اور نیزے اٹھا رکھے تھے۔تاہم ان نیزوں کی نوک طویل تھی۔ ان کے ہتھیار تیارینیوں ماکرونیوں اور موسی نوشیوں سے ملتے جلتے تھے۔5۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ بلوچ قوم باشندے وہ چاہے ساروان و جہالاوان میں آباد تھے یا مکران میں،وہ عسکری ترتیب و تربیت میں یکساں تھے۔ اس کے علاوہ حکیم ابولقاس فردوسی کی شاعری کا مجموعہ ”شاہنامہ“ جہاں وہ انہیں آرین حکمران سیاؤش اور کیخسرو کے زمانے میں جنگ کا دھنی کہہ کر پکارنے کے ساتھ انہیں ایک جھنڈے تلے یکجا دکھاتا ہے۔جیسے سیاھش ز گردان کوچ و بلوچ
سگالیدہ جنگ و برآور دہ خوج

کسی درجھان پشت ایشان ندید
برھنہ یک انگشت ایشان ندید

درفشی برآوردہ پیکر پلنگ
ھمی ازدرفشش ببارید جنگ

(6)
فردوسی اپنے ان اشعار میں جہاں بلوچوں کی بہادری پہ نازاں ہے وہاں وہ انہیں ایک ہی جھنڈے تلے ظاہر کرتا ہے لہذا لفظ کوچ فقط شاعری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے تا کہ شعر کا وزن ٹوٹنے نہ پائے اور بعض مورخین لفظ کوچ کو الگ معنوں میں ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر وہ ایک جھنڈے تلے اور ان کی بہادری یکساں، تو الگ تصور کرنے کا سوال ہی غیر منطقی ہے۔


اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا خطہ جس کی سرحدیں ایک جانب جنوب میں ہندوستان، شمال میں افغانستان اور مغرب میں ایران کے ساتھ ملتی ہیں یہی بلوچوں کا آبائی مسکن ہے۔اسی لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ نظریات جن میں بلوچوں کا رشتہ عرب نسل، آرین،ترکمان، کردوں یا بابلی بادشاہوں اور دیوتاؤں سے جوڑدیا گیا ہے وہ مفروضات کے سوا اور کچھ نہیں کیوں کہ قدیم تاریخ میں بلوچوں کا تذکرہ ہوچکا ہے جہاں انہیں نہ تو ہیروڈوٹس عرب، ترکمان، آرین،بابلی اور کرد وغیرہ گردانتا ہے اور نہ ہی حکیم ابولقاسم فردوسی۔
اس حوالے سے ڈاکٹر شاہ محمد مری کی رائے مستند ہے کہ بلوچ قوم پر لکھنے والے آج تک کے سارے مورخ ڈنڈا لے کر بلوچ کو بھگائے رکھا۔ہمیں سکونت نصیب ہی نہ ہونے دی۔کسی نے”بھو“ کہہ کر ہمیں کیسپین سی سے دوڑادیا، کسی نے حلب سے ہماری دوڑیں لگوادی اور کسی نے فارس سے۔ہم اپنی دلیلوں کی حاجزانہ ٹوکری لے کران سب سے الگ نظریہ لے آئے۔وہ یہ کہ ہم کہیں سے مہاجرت کرکے نہیں آئے۔ بلکہ ہزاروں برسوں سے یہی ہمارا وطن رہا ہے اور یہی ہمارا وطن ہے۔7۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ایک جگہ یوں رقم طراز ہے کہ ہماری دسترس میں محض پانچ سو برس کا بلوچی ادب رہا ہے اس

لیے ہم چاکر رند کے عہد کو اس لسانی بحث کا نقطہ آغاز گردانتے چلے آرہے ہیں۔ادھر مہرگڑھ کی تہذیب کھڑی ہم پر مسکرارہی تھی۔جی ہاں۔ہم پانچ سو سال کے بجائے گیارہ ہزار سال پرانے لوگ ہیں۔ 8۔
ڈاکٹرشاہ محمد مری کے علاوہ بلوچ تاریخ دان پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ کا نظریہ بھی یہی ہے کہ بلوچ کہیں باہر سے آنے والے مہاجر اور حملہ آور یعنی، آرین،کشان، ساقا، ہن،سفید ہن، عرب،دراوڑ، تاجک وغیرہ نہیں بلکہ ان کا خمیر اسی سرزمین سے اٹھایا گیا ہے جو بحر ہیرکانیہ(Caspian Sea)سے لیکر جنوب میں بندر بلوچ (بندرعباس تک) مغرب میں کرمان سے لیکر مشرق میں بولان تک یہ تما م خطہ۔9۔
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ کہیں سے مہاجرت کرکے نہیں آئے بلکہ ہزاروں سالوں سے وہ اسی وطن میں آباد چلے آرہے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مورخین کی آراء میں بلوچ قوم، بلوچ وطن میں مہاجر کی حیثیت سے آباد ہیں۔ اگر ہم مہر گڑھ اور بلوچستان کے دیگر آثار قدیمہ کے ساتھ ساتھ فردوسی، ہیروڈوٹس اور چند ایک یونانی مورخین کا باریک بینی سے مطالعہ کریں جنہوں درجنوں بلوچ قبائل جو موجودہ دور میں بھی بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں کا ذکر کیا ہے۔ ان حقائق کو دیکھ کرمہاجر ین کا نظریہ ایک بھوندھے مذاق کے سوا اور کچھ نہیں۔ان کے ساتھ ساتھ حمید بلوچ اپنی تصنیف تاریخ مکران میں مکران کے بلوچوں کو ہخامنشیوں، یونانیوں اور سانیوں کے خلاف برسرپیکار دکھاتا ہے جو اس جانب دلیل ہے کہ عہد قدیم میں بھی بلوچ انہی خطوں میں آباد تھے۔
حلب یا دیگر علاقوں سے مہاجرت کرنے والے بلوچ یقیناً وہ لوگ تھے جنہوں نے دو، تین ہزار سالہ تاریخ میں اپنے جنگی کارناموں کی وجہ سے وہاں جاگیریں حاصل کیں۔ کیونکہ ایران میں مید، ماد(آرین) دورحکومت سے بلوچ قوم ان کے لشکرمیں اہم مقام بنانے میں کامیابی حاصل کرچکی تھی۔ایک عظیم سلطنت کی فوج میں اعلیٰ مقام بنانے کا مطلب کہ آپ کو مفتوحہ علاقوں میں دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ جاگیروغیرہ ملنا قرین ازقیاس نہیں۔ویسے بھی جب فاتح لشکر کوئی علاقہ فتح کرتا ہے تو اس کی اولین ترجیح ان علاقوں کا ازسرنو انتظام کرنا، جس میں وہ مقامی افراد پہ اعتماد نہیں کرتے اسی لیے اس ضمن میں انہیں اپنے قابل اعتماد لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ایرانی ریاست کی انہی ضروریات کے پیش نظر بلوچوں نے ان علاقوں جیسے حلب وغیرہ میں سکونت اختیار کی۔


البتہ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ موجودہ دور کا بلوچ قوم ایک کثیر الجہتی قوم ہے جس میں عرب، آریائی نسل، تورانی،کرد، حامی النسل کے ساتھ ساتھ شمال کے ترکمان اور تاجکوں کی آمیزش بھی شامل ہے۔اس کی وجہ ایک بڑے عرصے تک اس پورے خطے میں شورشوں کا ہونا اور دوسری اہم وجہ بلوچ خطے کا ایک ایسے مقام پہ قائم ہونا جو مشرق، مغرب اور جنوب کی جانب ایک انتہائی اہم گزرگاہ ہے۔


اس مفصل بحث سے ہم اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ بلوچ قوم ایرانی بلوچستان، کرمان تا حد ایلان وگیلان، افغانستان کے زیر انتظام علاقے جن میں رباط، ہلمند، نیمروز اور فراح قابل ذکر ہیں کے علاوہ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے بعض علاقے جہاں آج بھی بلوچ قوم آباد ہیں یہی خطہ عظیم تر بلوچستان بھی کہلاتا ہے جس کا نقشہ اولذکر عظیم بلوچ حاکم نصیرخان نوری نے کھینچا۔از بعد میر عبدالعزیز کرد اور بلوچ مورخین سردار خاں، فاروق بلوچ اور ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ جیسے دانشوروں کا اس پہ اتفاق۔اس کے علاوہ اس پورے خطے میں موجود اب تک کے دریافت شدہ آثار قدیمہ کے نوادرات کو دیکھا جائے تو ان میں بھی ہمیں بلوچی ثقافت کا عنصر دیکھنے کو ملتا ہے لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچ قوم کا نسلی سلسلہ بلوچستان میں مدفون انہی آثار سے ملتی ہے جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سب سے نمایاں مقام کا حامل ہے۔


حوالہ جات
1۔بلوچستان اور برطانوی مورخین۔۔۔پروفیسرڈاکٹر فاروق بلوچ۔۔۔ناشر۔۔بلوچی اکیڈمی کوئٹہ۔ اکیڈمی۔۔۔اشاعت۔۔2018۔۔ایڈیشن۔اول۔۔صفحہ نمبر۔۔12-13۔
2۔ chapter 69 Herodotus History by A.D. Goldley 1920
3۔ chapter 69 Herodotus History by A.D. Goldley 1920
4۔دنیا کی قدیم تاریخ۔۔۔ہیروڈوٹس۔۔۔ترجمہ۔۔۔یاسر جواد۔۔۔ناشر۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔114۔
5۔دنیا کی قدیم تاریخ۔۔۔ہیروڈوٹس۔۔۔ترجمہ۔۔۔یاسر جواد۔۔۔ناشر۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔114۔
6۔حکیم ابولقاسم فردوسی۔۔۔شاہنامہ۔۔صفحہ نمبر۔۔372۔
7۔بلوچ قوم۔۔۔ ڈاکٹرشاہ محمد مری۔۔۔ گوشۂ ادب کوئٹہ۔۔۔ص۔۔۔8۔9)
8۔(مہر گڑھ سے ریاست کی تشکیل تک۔۔۔ڈاکٹر شاہ محمد مری۔۔۔ایڈیشن۔۔۔تیسرا۔۔۔ناشر۔۔۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز۔۔۔صفحہ نمبر۔۔۔68)
9۔ بلوچ اور ان کا وطن۔۔۔۔فاروق بلوچ۔۔۔فکشن ہاوس۔۔۔ص۔۔۔88)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here