فورسز اہلکار میری والدہ کی لکھی ہوئی شاعری کی تلاش میں تھے،بیٹی حبیبہ پیرمحمد

0
450

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے 19 مئی کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والی بلوچی زبان کے شاعرہ و آرٹسٹ حبیبہ پیر محمد کی بیٹی حنا نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے نامہ نگارسحر بلوچ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کی والدہ شاعری کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔

’کچھ شاعری میری والدہ کی میرے والد سے شادی اور پھر میرے بابا کے نشے کی لت لگنے سے منسلک تھی۔ وہ بلوچستان کی سیاسی اور معاشی محرومیوں پر بھی لکھتی رہی ہیں۔‘

حنا نے بتایا کہ ان کے گھر آنے والے اہلکار ان کی والدہ کی لکھی ہوئی شاعری کی تلاش میں تھے اور وہ چند ڈائیریاں اپنے ساتھ بھی لے گئے۔

حنا نے بتایا کہمیری ماں کو تین دن پہلے سادہ لباس اہلکار پوچھ گچھ کے لیے نیول کالونی کے ساتھ واقع مزدوروں کی کالونی میں ان کے گھرسے لے کر گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’سنیچر کی رات نو بجے میرے کزن کو فون آیا کہ گولیمار کے علاقے سے بلوچی گلوکار اشرف اور حبیبہ کو آ کر لے جاؤ اور پھر فون کٹ گیا۔ ہم اس نمبر پر دوبارہ فون لگاتے رہے لیکن فون نہیں ملا۔ تھوڑی دیر بعد پھر فون آیا اور پتہ بتایا گیا۔‘

حنا نے بتایا کہ ان کی والدہ اس وقت ’کمزوری کی حالت میں ہیں اس لیے بات نہیں کر سکتیں‘ لیکن حنا خوش ہیں کہ ان کی والدہ زندہ واپس لوٹی ہیں۔

حبیبہ پیر محمد کا تعلق بلوچستان کی تحصیل کیچ کے گاؤں نظرآباد سے ہے جہاں سے وہ سات سال قبل کراچی منتقل ہوئی تھیں۔ کراچی آنے کے پیچھے وجہ ان کے علاقے کے حالات تھے۔

حبیبہ کی 20 برس کی بیٹی حنا محمد حنیف نے بتایا کہ 19 مئی کو شام چار بجے ان کے گھر کے باہر گاڑیاں آ کر رکیں اور دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔

’میں نے کھڑکی سے دیکھا تو دو کالی ویگو، ایک پولیس کی موبائل اور کالے رنگ کی ایک وین کھڑی نظر آئی۔ ان گاڑیوں کے پاس چند اہلکار بھی کھڑے تھے، جن میں سے تین وردی میں اور باقی سادہ لباس میں تھے۔‘

’ان میں سے ایک نے کہا کہ گلی میں چور گھسے ہیں جن کو تلاش کرنے کے لیے آپ کے گھر کی چھت پر جانا ہے۔‘

حنا نے بتایا کہ اس وقت تک ان کی والدہ حبیبہ بھی دروازے پر آ گئیں اور انھوں نے اہلکار کی یہ بات سن کر دروازہ کھول دیا۔

’وہ لوگ دروازہ کھلتے ہی کمروں کی طرف چلے گئے۔ میری والدہ کو ایک اہلکار کچن کی طرف لے کر گیا اور ان سے آہستہ آواز میں باتیں کرنے لگا۔ مجھے سنائی نہیں دیا کہ وہ کیا پوچھ رہے ہیں۔

’اتنی دیر میں باقی اہلکار ہمارے کمروں میں الماریاں کھول کر سب سامان باہر نکال رہے تھے۔ ہم سب کے موبائل چھین لیے۔ آئی پیڈ، لیپ ٹاپ بھی لے کر گئے۔‘

حنا نے بتایا کہ اتنی دیر میں جو اہلکار کچن میں حبیبہ سے بات کر رہے تھے وہ انھیں لے کر باہر جانے لگے۔

’انھوں نے مجھے کہا کہ تھوڑی بہت بات کرنی ہے۔ آپ کی والدہ کو آدھے گھنٹے تک واپس لے آئیں گے۔ میں نے انھیں کہا ہم بچے بھی ان کے ساتھ جائیں گے۔ انھوں نیانکار کیا تو میں نے اپنے 17 سال کے بھائی کو ساتھ بھیج دیا۔‘

حنا نے بتایا کہ باہر جا کر اہلکاروں نے حبیبہ کو ویگو میں سامنے جبکہ بھائی کو پیچھے والی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔

’لیکن تھوڑے ہی فاصلے پر انھوں نے میرے بھائی کو گاڑی سے اتار دیا تو میں نے اسے آواز دی کہ گاڑی کے پیچھے بھاگو۔ وہ لوگ بہت تیزی سے گاڑی بھگانے لگے اور میرے بھائی کو پاؤں میں چوٹ لگ گئی تو وہ زیادہ دیر پیچھے نہیں بھاگ سکا۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here