حب کی صنعتیں لسبیلہ میں بیروز گاری کا خاتمہ بھی نہیں کرسکیں، مولا نا ہدایت الرحمان

0
225

حق دو بلوچستان تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن نے حب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ لسبیلہ میں دو سو فیکٹریاں چل رہی ہیں۔حب کی صنعتوں سے بلوچستان میں بیروزگاری ختم نہیں ہونا تھا تو کم از کم لسبیلہ میں بیروزگاری ختم ہونا چاہیے تھا تاکہ یہاں کہ لوگ کہہ سکتے کہ لسبیلہ میں دو سو فیکٹریاں ہیں یہاں بیروزگاری نہیں ہے۔

لیکن شاید اس لیے حب کے صنعتوں سے لسبیلہ والوں کو روزگار نہیں دیا جارہا کہ لسبیلہ بھی بدقسمت صوبہ بلوچستان کا حصہ ہے جسطرح گوادر پورٹ ہونے کے باوجود اپنے لوگوں کو صحت و دیگر سہولیات نہیں دے سکتا اسی طرح لسبیلہ بھی دو سو فیکٹریاں ہونے کے باوجود اپنے لوگوں کو روزگار نہیں دے سکتا۔ اطلاعات ہیں کہ ان فیکٹریوں میں بلوچ کو تعصب کی نظر سے دیکھا جارہا ہے کہ کہیں بلوچ فیکٹری میں کام پر نہ لگ جائے یہ حکومتی نمائندوں کے لیے باعث شرم ہے کہ یہاں فیکٹریاں موجود ہیں مگر یہاں کہ مقامیوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔

ہمارے مطالبات ہیں کہ اگر ان فیکٹری والوں نے یہاں کے لوگوں کو روزگار نہیں دیا اگر یہاں پیسہ کما کر یہاں کے لوگوں کو سہولیات فراہم نہیں کیں اگر یہاں کا پانی استعمال کرکے یہاں کے لوگوں پر خرچ نہ کیا ان فیکٹریوں کے دھوؤں سے بیماریاں پھیل رہی ہیں اگر یہاں کے لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم نہ کرتے لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ان فیکٹریوں میں 70 فیصد مقامی لوگوں کو نوکریاں دی جائیں دوسرا ان فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام کو ختم کیا جائے تیسرا یہ فیکٹریاں جو یہاں سے کماتے ہیں وہ 5فیصد یہاں کے لوگوں پر خرچ کریں اسی طرح ان فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلہ پانی جو سڑکوں پر ہے انکے محفوظ اخراج کے لیے اقدام کریں ماحولیاتی آلودگی کمسن بچوں کو مزدوری کروانے کے بچائے انکو تعلیم دلائیں اور ان فیکٹریوں سے اربوں روپے ٹیکس دوسرے صوبے کو ملتے ہیں وہ بلوچستان کو ملنے چاہیں اسکے علاوہ گڈانی شپ بریکنگ میں بھی روزگار سمیت دیگر سہولیات فراہم کریں اور آخری مطالبہ یہ ہے کہ لسبیلہ میں قائم یہ فیکٹری والے لسبیلہ میں کھیلوں کے فروغ کے لیے اقدام کریں۔

کھلاڑیوں کی مالی مدد کریں تاکہ نوجوان نسل کو سماجی برائیوں سے بچایا جائے اگر ہمارے مطالبات پر عمل نہ ہوا تو حب کے ان دو سو صنعتوں کے خلاف اور انکی سرپرستی کرنے والے دو بڑے مافیا ہیں انکے خلاف گوادر سے بھی بڑا دھرنا دیا جائیگا.انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا بھی بڑا مسئلہ ہے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں آج بھی ہماری مائیں اور بہنیں بلوچستان کی سڑکوں پر اسلام آباد اور کراچی پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہی ہیں ان اندھے اور بہرے حکمرانوں کی کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی اسی طرح بلوچستان میں چیک پوسٹیں ہیں. انہوں نے کہا کہ سی پیک میں جب گوادر میں پورٹ بن رہا تھا تو ہمیں بتایا گیا کہ گوادر مستقبل کا سنگاپور ہے ہم نے بھی سمجھا کہ مستقبل کا سنگار پور بننے جارہا ہے اور اپنے لوگوں کو بھی بتاتے رہے کہ آجاؤ گوادر کو دیکھو کل کہیں ویزے کے ساتھ نہ آنا پڑے لیکن اب ہم اپنے لوگوں کو بتا رہے کہ اگر گوادر آو? تو اپنے ساتھ پانی لانا کیونکہ یہاں پینے کا پانی نہیں ہے۔

اگر گوادر آؤ تو اپنے ساتھ سولر پلیٹیں لانا کیونکہ یہاں بجلی نہیں ہے اور اگر گوادر آنا ہے تو اپنے ساتھ پیناڈول لانا کیونکہ یہاں صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں.انہوں نے کہاکہ سی پیک کے نام پر اسلام آباد کے حکمرانوں نے بلوچستان والوں سے غداری کی ہے ہمیں دھوکا دیا گیا جب سی پیک شروع ہورہا تھا تو ہمیں بتایا گیا کہ گوادر میں ترقی آئیگی بلوچستان ترقی کریگا یہاں موٹرویز بنیں گی یہاں صنعتیں قائم ہونگی تعلیمی ادارے اور روزگار کے مواقع اتنے میسر ہونگے کہ باہر سے لوگ منگوانے پڑینگے۔

لیکن بلوچستان سے اسلام آباد والوں نے غداری کی سی پیک کے نام پر صرف ہمیں چیک پوسٹیں دی جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی ہیں نہ موٹرویز بنی نہ ہسپتال بنے نہ صنعتیں آئیں نہ ہی روزگار ملا اگر کچھ ملا ہے بلوچستان والوں تو وہ صرف چیک پوسٹیں ہیں.ایک سوال کہ جواب میں انکا کہنا تھا گوادر دھرنا اپنے حقوق کے وصول کے لیے تھا میں کوئی پیراشوٹ سے اتر کر نہیں آیا ہوں 30سال سے سیاست کرتا آرہا ہوں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہروقت آواز بلند کرتا آرہا ہوں قوم پرستی اب ختم ہوچکی بلوچستان میں اب اقتدار پرستی رہ گئی ہے. اس موقع پر جماعت اسلامی یوتھ مکران ریجن کے صدر محمد جان مری سمیت دیگر موجود تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here