لیبیامیں الیکشن سے قبل قومی اتحاد حکومت قائم کرلیا گیا

0
402

لیبیا کی پارلیمان نے انتخابات سے قبل ایک قومی اتحاد حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے جس سے ملک میں برسوں سے جاری تنازعے کے خاتمے کی بھی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔

جرمنی، مصر اور اردن کے رہنماو¿ں نے لیبیا کو مستحکم کرنے کے مقصد سے ایک قومی اتحاد حکومت کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس فیصلے کے لیے لیبیا کے رہنماﺅں کی تعریف کی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعرات 11 مارچ کے روز کہا کہ لیبیا نے ایک عبوری حکومت کے قیام پر جو اتفاق کیا ہے وہ جنگ زدہ ملک کے لیے ”ایک شاندار پیش رفت ہے۔”

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک مشترکہ کانفرنس کے دوران جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ساتھ اردن اور مصر کے وزراءخارجہ نے بھی اس پیش رفت کی تعریف کی۔

مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے اسے اچھی خبر سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، ”جب بھی اچھی خبر ہو تو ہمیں اس پر بات کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک روز قبل ہی سیاسی عمل پر اعتماد کے لیے ووٹنگ ہوئی اور اس کا آغاز بھی ہوگیا ہے، یہ بہت اہم نقطہ ہے۔”

اس دوران لیبیا کے لیے یورپی یونین کے سفیر جوس سباڈیل نے اس بات پر زور دیا کہ لیبیا کی نئی قومی اتحاد حکومت، ”عالمی برادری کی مکمل حمایت پر اعتبار کر سکتی ہے۔”

بدھ 10 مارچ کو جب لیبیا کی پارلیمان نے ایک عبوری قومی اتحاد حکومت کے لیے ووٹ کیا تو اس وقت جرمن وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ لیبیا کی پارلیمان نے سیاسی عمل جاری رکھنے کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت نے، ” قومی سطح پر آزادانہ انتخابات کے لیے ایک بڑے کام کی تیاری شروع کر دی ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کو پھر سے متحد ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

لیبیا کی پارلیمان نے بدھ کے روز ایک ایسی متحدہ حکومت پر اتفاق کر لیا تھا جس کو منقسم اور جنگ زدہ ملک کو ایک ساتھ لانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی حکومت پر اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت دسمبر میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کی بھی ذمہ داری ہے۔

وزیر اعظم عبدالحمید ذبیح کی کابینہ نے پارلیمان میں متحدہ حکومت کے قیام کی جو قرارداد پیش کی تھی اسے 132 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ مخالفت میں صرف دو ووٹ پڑے۔ اس کامیابی کے بعد وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ نے کہا، ” یہ بات بالکل صاف ہوگئی ہے کی لیبیا کی عوام متحدہے۔”

اس برس لیبیا کو اپنے آئین میں ترامیم اور آزادانہ عام انتخابات کرانے ہیں۔گرچہ تمام رہنماو¿ں نے اس کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کر رکھا ہے تاہم پھر بھی یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

یورپی یونین میں خارجی امور سے وابستہ طارق مجریسی کا کہنا ہے، ”اگر ہم اس صورت حال سے ایک حکومت اور اداروں کے ایک متحدہ گروپ کے ساتھ نکل آئے، تو ہم پچھلے پانچ برسوں سے جہاں ہیں اس سے کہیں بہترمقام پر ہوں گے۔”

سن 2011 میں لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ملک میں خانہ جنگی کے سبب افرا تفری کا ماحول ہے۔ ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں جو ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد کئی برسوں سے لیبیا شدید سیاسی، معاشی اور انسانی بحران میں مبتلا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here