مودی نے کشمیر میں دریائے چناب پر بجلی گھر بنانیکی منظوری دیدی

0
343

نئی دہلی نے پاکستان کے اعتراضات اور تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دریائے چناب پر ایک اور پن بجلی کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی منظوری دی ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں نئی دہلی میں مرکزی کابینہ کے اجلاس میں باضابطہ طور پر منصوبے کی منظوری دی گئی۔

منظوری ملنے کے بعد حکام نے بتایا کہ پن بجلی کا یہ منصوبہ جموں و کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں دریائے چناب پر پانی کے بہاﺅپر تعمیر ہو گا۔

حکام کے مطابق اس 850 میگا واٹ پن بجلی کے منصوبے کو لگ بھگ 52 ارب روپے کی لاگت سے پانچ سال میں مکمل کیا جائے گا۔

‘ریٹل’ نامی اس منصوبے کا سنگِ بنیاد بھارت کے سابق وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے 25 جون 2013 کو رکھا تھا۔

کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ اس منصوبے پر کام کو اس لیے جاری نہیں رکھا جا سکا، کیوں کہ پہلے کی بھارت کی مرکزی حکومت کو یہ ڈر تھا کہ پاکستان اس کے خلاف بین الاقوامی ثالثی عدالت اور عالمی بینک میں جائے گا۔

انہوں نے جموں میں پریس کانفرنس میں کہا کہ سابقہ حکومتیں پاکستان کی دھمکیوں سے خائف تھیں۔ پاکستان بار بار بین الاقوامی ثالثی عدالت اور عالمی بینک میں جانے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مرکزی حکومت نے نہ صرف ان تمام دھمکیوں اور اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس منصوبے کی منظوری دی۔ بلکہ اس پر پیسہ لگانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دریائے سندھ اور دیگر دریاﺅں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد کا یہ الزام بھی رہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی جاری ہے اور بعض منصوبے، جن میں ریٹل پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے، پاکستان کو مستقبل میں اس کے حصے کے پانی سے محروم کر دیں گے۔ بھارت اس الزام کو مسترد کرتا رہا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ جن آبی منصوبوں پر وہ کام کر رہا ہے وہ دراصل پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بلکہ بہتے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں۔ جو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

پریس کانفرنس میں کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے بتایا کہ منصوبے کو بھارت کی نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن اور جموں و کشمیر اسٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن بالتریب 51 فی صد اور 49 فی صد شراکت داری کی بنیاد پر تعمیر کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف کشمیر توانائی کے معاملے میں خود کفیل ہو جائے گا۔ بلکہ اس سے چار ہزار نوکریاں فراہم ہوں گی جس کے علاقے کی مجموعی سماجی اور معاشی ترقی میں ایک اہم حصہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں دریائے سندھ، چناب، جہلم اور مختلف ندیوں، چھوٹے دریاﺅں پر بند باندھے جائیں گے۔ جن سے مجموعی طور پر 12 ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور جموں و کشمیر کے لیے تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

ماضی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں چناب اور جہلم پر پن بجلی کے بعض منصوبوں پر تنازعات کشیدگی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ لیکن بعد ازاں انہیں متعلقہ حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے ذریعے حل کیا گیا۔

سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کا متواتر جائزہ لینے اور اس سلسلے میں طرفین کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اور تحفظات پر غور کے لیے ہر چھ ماہ بعد اسلام آباد اور نئی دہلی میں باری باری اجلاس منعقد کیے جاتے تھے۔ البتہ گزشتہ تقریباً ایک سال کے دوراں کرونا وائرس کی وجہ سے دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کے درمیان اس طرح کی کوئی ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا، جو سندھ طاس معاہدے سے جڑے امور پر مسلسل نظر رکھتے آئے ہیں، کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان دریاﺅں کے پانی کی تقسیم پر اختلافات اور تنازعات کا افہام و تفہیم کے ذریعے دائمی حل تلاش نہیں کیا جاتا تو یہ معاملہ مستقبل میں ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں نشیب و فراز سب پر عیاں ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ چند برس کے دوران ان میں بگاڑ ہی مشاہدے میں آیا۔ اب اگر دریاﺅں کے پانیوں پر تنازعات اور اخلافات کو ہمیشہ کے لیے حل نہیں کیا جاتا تو اندیشہ ہے کہ یہ مستقبل میں کسی ناخوشگوار صورتِ حال کو جنم دینے کا باعث بنیں۔

ان کے بقول سندھ طاس معاہدہ اگرچہ تمام رکاوٹوں اور اعتراضات، الزامات اور جوابی الزامات کے باوجود برقرار ہے۔ بھارت جموں و کشمیر میں بہنے والے دریاﺅں کے پانی کو موڑنے کی بات بھی کر رہا ہے، گرچہ اس میں اسے تیکنیکی مسائل کا سامنا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازع پر ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے حکمت اور سیاسی دانش مندی کے بھرپور اور عملی مظاہرے کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here