……پاھار……
بلوچستان کے جنگلات و اسکولز
کو نذر آتش کرنیکا نیا ریاستی مہم شروع
ماہِ اکتوبر میں 35فوجی آپریشنز میں 32 افرادلاپتہ،19لاشیں برآمد،35 گھرنذرآتش
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
بلوچ قومی آزادی کی جہد جس توانائی وتیزی سے منزل کی جانب رواں ہے،اسی تیزی سے ریاستی بربریت میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔آبادیوں پر فضائی وزمینی آپریشنز بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیاں، زیر حراست قتل عام،ٹارگٹ کلنگ جیسے مظالم اب بلوچ قوم کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فوج نے ضلع کیچ،ضلع گوادر،ضلع پنجگور،ضلع آواران میں 35 سے زائد فوجی آپریشنز کیے،جہاں آبادیوں،پہاڑی علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی،اسی مہینے 32 بلوچ فرزند بھی پاکستانی فورسز نے اغوا کیے۔
اکتوبر کے مہینے میں 19 نعشیں برآمد ہوئیں، جس میں دس بلوچ فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے اور ایک لاش کی شناخت نہ ہو سکی جبکہ دیگر6 کے محرکات سامنے نہ آئے اور دوافراد کوئٹہ دھماکے میں جانبحق ہوئے جوریاستی فورسز نے پی ڈی ایم کے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے کیا تھا۔
دوران فوجی آپریشنز فورسز نے 100سے زائد گھروں میں لوٹ مار کی اور35 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
پاکستانی فورسز کی عقوبت خانوں سے دو شخص بازیاب ہوئے،ایک شخص کو اسی سال فروری کے مہینے میں فورسز نے لاپتہ کیا تھا جبکہ ایک چار بعد بازیاب ہوا۔
اکتوبر کے مہینے میں تمپ،دشت،بلیدہ میں فوج نے کئی نئی چوکیاں قائم کیں،جبکہ دشت،زامران میں جنگلات کو بھی نذر آتش کرنے کے ساتھ آئی ایس آئی کے کارندوں نے کیچ اور بلیدہ میں اسکول بھی نذر آتش کیے۔
عالمی انسانی قوانین سے عاری قابض ریاست کی بربریت کی نئی لہر اب مقبوضہ بلوچستان کے جنگلات کو بھی جلانے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے،اس کے ساتھ ریاستی کارندے پرائیوٹ اسکولوں کو بھی نذر آتش کر رہے ہیں۔یقینا ایسے عمل ریاستی بھوکھلاہٹ کی نشانی ہیں۔
تمام تر ریاستی جارحیت کے باوجود بلوچ قومی آزادی کی جہد توانائی کے ساتھ جاری ہے،بلوچ فرزندوں کی قربانیوں نے آج قومی شناخت کی جہد پورے مقبوضہ بلوچستان میں پھیلا دیا ہے اور اسی وجہ سے ریاستی فورسز بھوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور جارحیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔قابض کے خوف کا نتیجہ دیکھیں کہ اب اسکولوں کو بھی جلایا جا رہا ہے،باشعور بلوچ قوم شعوری بنیادوں پر اپنی جہد کے راہ پر گامزن ہے اور دشمن تمام عالمی جنگی قوانین سے عاری ہے۔
ستمبر کے مہینے کی طرح اکتوبر کے مہینے میں بھی دشت اور زامران میں جنگلات کو نذر آتش کیا گیا۔
عالمی سطح پر ریاستی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹیوں نے آگاہی مہم چلائے،مگر اب بھی سفارتی حوالے موثر کام کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ دنیا کو قائل کیا جا سکے کہ وہ قابض پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور بلوچستان کی آزادانہ حیثیت کو بحال کیا جا سکے۔
ماہ اکتوبر کی تفصیلی رپورٹ
یکم اکتوبر
۔۔۔بلوچستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ھانی گل نے شہدا کی میتوں کو لواحقین کی تحویل میں نہ دینے کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے جمعے کے روز احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔
لاپتہ افراد کے حوالے سے سرگرم کارکن ھانی گل نے کل بروز جمعہ شام 4 بجے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کی کال دی ہے۔
۔۔۔مزن بند میں پاکستانی فوج کے ساتھ ہوئے ایک معرکہ میں شہید ہونے والے شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کردی گئی ہے۔ تاہم پاکستانی فوج لواحقین کو میتیں نکال کر دوبارہ دفن کرنے کی اجازت نہیں دے رہی۔نشاندہی ہونے کے بعد لواحقین نے شہدا کی قبروں پر مٹی ڈال کر عارضی نشان لگا دیئے ہیں۔
لواحقین نے تمپ میں ایف سی کیمپ کے سامنے لاشوں کی حوالگی کے لیے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ لواحقین چاہتے ہیں کہ انہیں لاشوں کو وہاں سے نکال کر اسلامی رسومات کے مطابق دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔
۔۔۔شہید عرفان،شہید نورخان کے لواحقین کاپریس کانفرنس: لاشیں نہ ملنے تک احتجاج جاری رہے گی۔
ضلع کیچ میں پریس کانفریس سے کرتے ہوئے ہوئے شہداء کے کہنا تھا ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے پاکستانی فوج کی ظالمانہ و سفاکانہ داستان آپ کے توسط سے انسانی حقوق کے ملکی، عالمی اداروں اور مہذب دنیا کے علم میں لانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں شہید غلام مصطفی کی بیٹی شِہلا مصطفیٰ ہوں کہ25 مئی 2013 کو میرے والد کو پاکستان آرمی نے مئی 2013 میں بلوچستاں میں اپنی الیکشن کی بلوچ عوام کی جانب سے مکمل بائیکاٹ کے بعد دس سے زائد بلوچوں سمیت قتل کیا تھامیری والد کے قتل کے بعد متعدد مرتبہ تمام خاندان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا، پاکستان آرمی کی جانب سے میری سمیت ہماری تمام خاندان کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ ہم کئی دنوں تک کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے اور پانی پینے کے واسطے ایک گلاس تک بھی ہماری گھروں میں سلامت نہیں بچی تھی۔
شہلا مصطفی کا کہنا تھا 28 ستمبر کو میرے بھائی عرفان بلوچ اور نورخان بلوچ کو پاکستان آرمی نے شہید کیا تھا، ہم 29ستمبر کی صبح لاشوں کو وصول کرنے تمپ (واپڈا گریڈ)آرمی کیمپ گئے تھے تو آرمی ہمارے ساتھ انتہائی توہین و حقارت آمیز رویے سے پیش آئی اور شام تک ہمیں انتظار کرانے کے بعد ہم سے کہا گیا کہ کہ رات دس بجے آ کر شہدا کی جسد خاکی لیکر جاؤ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری رات کیمپ کے سامنے انتظار کیا مگرہمیں میت نہیں دیے گئے اورباربارفوجی اہلکارہمارے پاس آکر توہین آمیز رویے سے پیش آتے رہے،ہمیں گالیاں دیتے رہے،ہم ہر طرح سے حراساں کرنے کی کوشش کی لیکن ہم اپنے پیاروں کی میت وصول کرنے کے لئے بیٹھے رہے اس کے باوجود فوج نے ہمیں میت نہیں دیئے۔
۔۔۔ضلع کیچ: پاکستانی فوج نے اپنی زیر حراست نوجوان کو تربت پولیس کے حوالے کرنے کے بعد دوبارہ تحویل میں لے کر لاپتہ کردیا۔
انیس گہرام نامی نوجوان بلوچ آباد مند کا رہائشی ہے جنہیں چھ مہینے قبل پاکستانی فوج نے حراست بعد لاپتہ کیا تھا۔ پانچ روز قبل انہیں عقوبت خانے سے رہا کرکے تربت پولیس کے حوالے کیا گیا۔
پولیس ذرائع نے ان کے لواحقین کو بھی اطلاع دی جنہوں نے وہاں ان سے ملاقات کی اور ان کی تصویر کھینچی تاہم پولیس نے انہیں رہا کرنے کی بجائے پولیس تھانہ کے لاک اپ میں رکھنے کو کہا۔
پولیس نے لواحقین کو بتایا کہ انہیں مزید تفشیش کے لیے تفشیشی افسران کے سامنے پیش کیا جائے گا جن کے بعد انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔لیکن اس کے برعکس انہیں پاکستانی فوج نے تربت پولیس تھانے سے دوبارہ اپنی تحویل میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
2 اکتوبر
۔۔۔چار اکتوبرمسنگ پرسنز کے لیے گورا قبرستان سے کراچی پریس کلب تک ریلی نکالی جائے گی۔
وائس فار مسنگ پرسنز سندھ،سندھ سجاگی فورم اور کراچی سول سائٹی کی جانب سے سندھی،بلوچ،پشتون،کشمیری،اُردو اسپیکنگ تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے گورا قبرستان سے کراچی پریس کلب تک مارچ نکالی جائے گی،
3 اکتوبر
۔۔۔بلوچستان کے ضلع نوشکی سے نوجوان جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔
نوشکی شہر میں قاضی آباد کا رہائشی نوجوان شاہد ولد حاجی شریف بادینی گذشتہ آٹھ دنوں سے لاپتہ ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ شاہد کا روزگار دکانداری ہے جنہیں 24 ستمبر کو پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے کیشنگی کے مقام سے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے عیسی کہن زنگی سے ایک لاش برآمد ہوئی ہے جسے فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا ہے
پنجگور کے علاقے عیسی کہن زنگی کے مقام سے ایک نوجوان کی لاش برآمد ہوئی ہے جسکی شناخت محمد نیاز ولد ایاز کے نام سے ہوئی ہے، پولیس کے مطابق مذکورہ شخص کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔تاہم تاحال اس واقع کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔
۔۔۔بلوگومازی میں پاکستانی فوج نے پارٹی کے وائس چیئرمین غلام نبی بلوچ کے گھر پر چھاپہ مارکر خواتین اور بچوں پر ذہنی وجسمانی تشدد کی۔ تمام اہلخانہ کے سیل فون ضبط کرکے لے گئے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وائس چیئرمین بی این ایم غلام نبی بلوچ کے گھر پر چھاپہ پڑا ہے، بلکہ اس سے قبل کئی مرتبہ پاکستانی فوج نے ان کے گھروں پر حملہ کیا ہے۔ ایک دفعہ تمام گھروں کو لوٹنے کے بعد نذر آتش کیا گیا تھا۔
4 اکتوبر
۔۔۔ڈاکٹر اللہ نذر کا ٹویٹر اکاؤنٹ بند کرنا تحریک آزادی کی آواز کو خاموش نہیں کرسکتا، ڈاکٹر عبداللہ ھیواد۔
8 اکتوبر
۔۔۔انسانی حقوق کارکن طیبہ بلوچ کا والد قتل،خضدار، کوئٹہ و کیچ سے 2 لاشیں برآمد،ایک شخص لاپتہ
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن طیبہ بلوچ کے والد کو کیچ میں قتل کردیا گیا جبکہ خضدار و کوئٹہ سے 2لاشیں برآمد اورکیچ سے ایک شخص کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔
کیچ کے مرکزی شہر تربت سنگانی سر کے مقام پر معروف سیاسی و انسانی حقوق کے کارکن اوربلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سابقہ وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ کے والد حنیف چمروک کو نامعلوم مسلح افراد نے گھر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
طیبہ بلوچ کے والد کو گزشتہ شب کیچ کے مرکزی کے علاقے تربت سنگانی سر کے مقام اس وقت نامعلوم مسلح افراد نے قتل کیا جب وہ گھر کے باہر اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ طیبہ بلوچ، بلوچ ہیومن رائٹس کے سرگرم کارکن ہیں اورانتہائی متحرک رہے ہیں،بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے وہ ایک توانا آواز کی حیثیت سے پہچان رکھتی ہیں اور ان کے خاندان بھی بلوچ قومی تحریک سے وابستگی رکھتاہے،بتایا جارہاہے کہ طیبہ بلوچ کے والد کو تحریک سے وابستگی کی بنا پر قتل کیا گیا۔
اسی طرح بلوچستان کے ضلع خضدار اور دارالحکومت کوئٹہ سے دو افراد کی لاشیں ملی ہیں جن میں سے ایک شناخت ہوگئی جبکہ دوسرے کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق خضدار کے علاقے زہری میں لیویز حکام کو اطلاع ملی کہ بدوکشت گڈ میدان کے مقام پر ایک نامعلوم شخص کی لاش پڑی ہے جس پر لیویز لائن آفیسر کی سربراہوئی میں لیویز فورس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور لاش کو تحویل میں لیا گیا۔
حکام کے مطابق لاش کو ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اس کی شناخت خیر محمد ولد دین شیخ سکنہ نورگامہ زہری کے نام سے ہوئی ہے۔
دریں اثنا دارالحکومت کوئٹہ میں مین سٹی نالے سے ایک شخص کی لاش برآمد کرلی گئی ہے۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے گومازی سے پاکستانی فوج نے ایک شخص کو حراست میں لے کر فوجی کیمپ منتقل کردیا ہے۔
فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت دینار ولد حیدر کے نام سے ہوئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج نے مذکورہ شخص کو نائی کے دوکان سے حراست میں لے کر فوجی کیمپ مقام منتقل کردیا ہے۔
9 اکتوبر
۔۔۔ رات گئے تمپ کے علاقے ملک آباد میں قابص پاکستانی فورسزاور بلوچ سرمچاروں کے درمیان ہونے والے طویل جھڑپ میں سیکورٹی فورسز کے متعدد اہلکاروں کے ہلاکت کی اطلات موصول ہورہے ہیں۔
جبکہ رات گئے فورسز کی اضافی نفری تمپ سے ملک آباد جاتے نظر آیا۔
ذرائع کے مطابق اس جھڑپ میں ایک بلوچ فرزند عابد ولد ولی ولی محمد جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے کیچ سے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
پاکستانی فوج نے کیچ کے علاقے بلیدہ سے حاتم ولد محمد یوسف نامی شخص کو بلیدہ کے علاقے کوچگ سے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
واضح رہے مذکورہ شخص کو پاکستانی فوج نے اس سے قبل بھی حراست لیا تھا اور چھ ماہ تک لاپتہ رکھنے کے بعد بازیاب کیا گیا تھا تاہم اب ایک بار پھر انہیں لاپتہ کردیا گیا ہے
۔۔۔بلیدہ: بناپ سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں 29 ستمبر کو اغواء ہونے والے تین افراد میں سے ایک مسلم ولد اسلم کو تین اکتوبر کے دن کئی دن عقوبت خانے میں تشدد کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
29 ستمبر 2020 کی رات تین بجے پاکستانی فوج نے بلیدہ کے گاؤں بناپ کو گھیرے میں لے کر وہاں سے تین افراد کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔
جن میں سے ایک مسلم کو 2 اکتوبر کو چھوڑ دیا گیا لیکن دیگر دو افراد تاحال جبری طور پر لاپتا ہیں جن میں مسلم کا بھائی نثار ولد اسلم بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ رحیم ولد مجید کو بھی اسی رات بناپ سے پاکستانی فوج نیحراست میں لینے کے بعد جبری لاپتا کیا ہے۔
۔۔۔۔جھاؤ کے علاقے نونڈرہ،جلونٹی،ملا رؤف گوٹھ،زیلگ،سورگر کے پہاڑی سلسلے اور دیگر علاقوں میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے، جس میں زمینی فوج کی بڑی تعداد حصہ رہی ہیں جبکہ فورسز کو جنگی ہیلی کاپٹروں کی کمک بھی حاصل ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق مذکورہ علاقوں کو جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی گئی اور گھرگھر تلاشی کا آغاز کردیا گیا ہے.
بتایا جارہا ہے کہ آپریشن کے زد میں آنے والے علاقوں میں گھروں میں لوٹ مار کے علاوہ لوگوں کے شناختی کارڈ فوج ضبط کررہا ہے۔
جبکہ زیلگ اور کوہڑو میں مزید چار گن شل ہیلی کاپٹر بھی پہنچ چکے ہیں اور دشوار پہاڑی علاقوں میں رسد پہنچانے کے لئے مقامی لوگوں کے اونٹ اور گدھے تحویل میں لے کر گزی،گجرو اور ترجی کی جانب پیش قدمی شروع ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ سورگر سمیت جھاؤ کے مختلف علاقے کئی سالوں مسلسل فوجی آپریشن کے زد میں ہیں۔
11 اکتوبر
۔۔۔جرمنی میں شاہینہ شاہین و حنیف چمروک کے قتل کیخلاف احتجاجی مظاہرہ۔
جسٹس فار شاہینہ شاہین کمیٹی جرمنی کے زیر اہتمام بلوچ صحافی، آرٹسٹ اور اینکر پرسن شاہینہ شاہین بلوچ، حنیف چمروک سمیت بلوچ خواتین کی قتل کے خلاف جرمنی کے شہر ڈسلڈورپ میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں بلوچ سیاسی کارکنان سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد نے بھی شرکت کی اور شاہینہ شاھین،حنیف چمروک سمیت بلوچ خواتین کی بہیمانہ قتل کی سخت مذمت کی۔
۔۔۔بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے طلباء کا ملتان تا اسلام اباد لانگ مارچ اتوار کے روز دوسرے دن 60 کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے خانیوال شہر میں داخل ہوچکا ہے۔طلباء بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں بلوچستان کے ریزرو سیٹس پر فیسوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ملتان میں چالیس دن تک احتجاجی کیمپ لگانے کے بعد بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ لانگ مارچ براستہ لاھور دو مراحل میں طے کی جائے گی پہلے مرحلے میں لگ بھگ 326 کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پیدل مارچ لاہور پہنچے گا۔ توقع ہے کہ روزانہ 30 کیلو میٹر کی رفتار سے مارچ 20 اکتوبر کو لاہور شہر میں داخل ہوگا جہاں احتجاج رکارڈ کرنے کے بعد مارچ کے شرکاء اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان نے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ میڈیا کو جاری کیا ہے، جو درج ذیل ہے۔
1-بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلباء کے لیے مخصوص نشتوں پر اسکالر شپ مکمل طور پر بحال کی جائے اور فیس طلبی کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اسے واپس لیا جائے۔
2۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے طلباء کے لیے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی اسکالرشپ کا اجراء کرکے اور مختلف شعبہ جات میں مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
3۔پنجاب کے دیگر جامعات میں بلوچستان کے طلباء کے لیے مخصوص نشستوں کے مسائل حل کیے جائیں۔
4۔پنجاب یونیورسٹی لاہور،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،اگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں بلوچستان کے طلباء کے لیے ختم کیے گئے مخصوص نشستوں کو بحال کیا جائے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان کے انفارمیشن سیکریٹری یاسین مراد نے کہاہم نے یہ بی زیڈ یو کے مرکزی دروازے سے شروع کیا تقریبا ہم 60 کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آج خانیوال پہنچے ہیں۔ راستے میں ساتھیوں کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے، وہ بہت تھک چکے تھے۔ہمیں اب تک پولیس پروٹکشن بھی نہیں دی گئی ہے۔راستے میں جتنے ہوٹلز ہیں ہم نے وہیں پر قیام کیا اور وہیں سے کھانا کھایا۔راستہ بہت ہی کھٹن تھا لیکن مجبوری میں یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔
۔۔۔کراچی:منشیات کے خلاف جہانگیر روڈ میں احتجاجی ریلی۔
ریلی میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت اور منشیات کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
۔۔۔ضلع پنجگور:چھ شیعہ زائرین مسلح افراد کے ہاتھوں اغواء
ضلع پنجگور کے مرکزی شہر سے صرف تین کلومیٹر دور یونین کونسل عیسی میں مسلح افراد نے چھ شیعہ زائرین کو اتوار کی صبح اغواء کرلیا۔
بتایا جارہا ہے مغویوں میں سے دو خواتین کو چھوڑ کر چھ مرد حضرات کو اپنے ساتھ لے گئے۔
اغواء شدگان کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ ایران کے شہر مشھد سے آرہے تھے اور وہ کراچی کے علاقے ماڈل ٹاؤن ملیر کے رہائشی بتایا جارہے ہیں۔
تاہم اغواء کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے۔
۔۔۔ضلع کیچ کے علاقے تمپ ایک بار پھر فوجی آپریشن کی زد میں ہے، اتوار کی صبح فورسز نے تمپ کے مختلف علاقوں وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہے۔
پاکستانی فوج نے تمپ کے علاقے کونشقلات نزرآباد سے ملحقہ پہاڑی علاقے مزن بند اور دیہی علاقوں کو حصار میں لے لیا ہے اور ناکہ بندی کرکے سخت چیکنگ کی جاری ہے جبکہ فورسز کی بڑی تعداد مزن بند کے پہاڑی سلسلے کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے،
12 اکتوبر
۔۔۔دشت ایک بار پھرپاکستانی فورسزنے جنگلات کو آگ لگا دی ہے۔
ضلع کیچ پاکستانی فورسز کی طرف سے بلوچستان کے جنگلات کو آگ لگانے کا سلسلہ جاری ہے،دشت ھسادیگ سے لے کر گوھرکھن کے جنگلات کو آگ لگا دیا گیا ہے۔ ہوا تیز ہونے کی وجہ سے آگ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے جس سے گھروں کا بھی آگ کی لپیٹ میں آنے کا خدشہ ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ واضح نظر آتا ہے کہ جان بوجھ کر آگ لگائی گئی ہے۔حادثاتی طور پر لگنے والی آگ اتنی جلدی نہیں پھیلتی کیوں کہ یہاں درختوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا ہے جس سے آگ محدود رہتی ہے۔
دشت کے جنگلات میں گذشتہ مہینے 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی رات کو بھی آگ لگائی گئی تھی جس سے سینکڑوں درخت جل گئے تھے۔
۔۔گوادر اور پسنی کے درمیان گردو غبار کا طوفان، متعدد گاڑیاں آپس میں ٹکراگئیں۔
گوادر اور پسنی کے درمیان تیز آندھی اور گردو غبار کاطوفان شروع ہوا جس کے باعث پسنی،گوادر کے درمیان ٹرانسمیشن لائن متاثر ہوئی اور گوادر شہرکو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔
دوسری جانب تیز آندھی اور گرد کی وجہ سے گوادراورپسنی کے درمیان مکران کوسٹل ہائی وے پر حد نگاہ متاثر ہوئی۔ انتظامیہ کے مطابق حدنگاہ متاثر ہونے سے کوسٹل ہائی وے پر ٹریفک کے مختلف حادثات پیش آئے ہیں۔
۔۔۔انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ ہیومین رائٹس کونسل کی سابقہ وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ کے چچا اور ساچان گرائمر اسکول کے پرنسپل شریف ذاکر کے گھر پر نامعلوم مسلح افراد نے رات گئے فائرنگ کی ہے۔
ضلع کے مرکزی شہر تربت میں شریف بلوچ کے گھر پر فائرنگ کی گئی،واضح رہے کہ گزشتہ دنوں نامعلوم افراد نے طیبہ بلوچ کے والد اور بلوچ فن کار حنیف چمروک کو بھی قاتلانہ حملے میں شہید کیا تھا۔
13 اکتوبر
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں فنکار حنیف چمروک کے قتل کے اور مقامی اسکول کے پرنسپل شریف بلوچ کے گھر پر حملے کے خلاف آج شہید فدا چوک پر مظاہرین کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر احتجاج کیا۔
حنیف چمروک ایک مقامی فنکار اور معروف انسانی حقوق کے کارکن طیبہ بلوچ کے والد تھے۔
ذرائع کے مطابق طیبہ بلوچ کی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کے والد کو کئی بار دھمکیاں دی جاچکی تھیں۔
آج ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر حنیف چمروک کے قتل میں ملوث قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ درج تھا۔
۔۔۔ بلوچستان کے ضلع آوارن کے علاقے جھاؤ میں چوری اور ڈکیٹی کے بڑھتے وارتوں کے بعد عوام سراپا احتجاج، واقعات کے روک تھام کیلئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔
جھاؤ میں عنایت ولد عبدالصمد نامی شخص کے گھر میں چوروں نے گھس کر لوگوں کو زد و کوب کیا اور گھر میں لوٹ مار کی جہاں زیورات اور قیمتی اشیاء سمیت موٹر سائیکل اپنے ہمراہ لے گئے۔
واقعے کے کیخلاف عوام نے احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے۔عوامی اجتماع سیمقررین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی دفعہ عوام نے رات کو چوروں کو رنگے ہاتھوں گرفتار کے کرکے پولیس کے حوالہ کیا گیا لیکن تاحال مذکورہ واقعات رونماء ہورہے ہیں۔
14 اکتوبر
۔۔۔پنجگورمیں فوجی آپریشن جاری، 3 افراد حراست بعدلاپتہ۔
تحصیل گچک سے لیکر جوری اور کنڈگ کے مقامات فوجی آپریشن کی زد میں ہے۔ آپریش میں پاکستانی فورسز کی بہت بڑی تعدار حصہ لے رہی ہے جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔
خیال رہے گچک اور گردنواح میں اگست کے مہینے اور اس کے بعد بھی فوجی آپریشن کی گئی جہاں پچاس سے زائد افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ گیا۔ مذکورہ افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جن میں کچھ کو بعدازاں رہا کردیا گیا جبکہ کچھ افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
اس آپریشن میں تین چرواہوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں اللہ داد اور شاہ مراد شامل ہے جبکہ تیسرے شخص کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ جھاؤ کے مختلف علاقوں میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کا تازہ لہر7اکتوبر کو شروع ہواتھا،اس میں مزید شدت لائی جارہی ہے،اس آپریشن میں پاکستانی فوج نے ایک درجن سے زائد افراد حراست کو میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے،حراست بعد لاپتہ ہونے والوں میں صمد ولد برفی،اسلم ولد محمد جان، دلمراد ولد محمد جان، عبدلکریم ولد عطا محمد، سلیم ولد عطا محمد، علی جان ولد زبر،ریکی ولد خیر بخش،غلام رسول ولد کریم بخش، صمد،رسول بخش،گلشیر ولد جمل، رضا محمد ولد دارو،حسن ولد دارو،ملا عبداللہ ولد لالو، روحیل، رسولک دین محمد اور معیار ولد محمد عالم کاشناخت ہواہے۔
15 اکتوبر
۔۔۔طیبہ بلوچ کا لاپتا افراد کی بازیابی کیلئے دوبارہ سرگرم ہونے کا اعلان۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی سابقہ وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے اپنے والد کے قتل کے بعد لاپتا افراد کے حوالے سے دوبارہ سرگرم ہونے کا اعلان کیا ہے۔
اپنے والد کے قتل کے بعد گذشتہ روز انہوں نے ٹویٹر میں بلوچی زبان میں ٹویٹ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ”میں دوبارہ لاپتا افراد اور انسانی حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کرؤں گی۔“
انہوں نے جبری لاپتا کی بیٹی مقدس کے ساتھ اپنی ایک تصویر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دیتے ہوئے اس حوالے سے لکھا ہے کہ: میں نے سوچا تھا کہ میری آواز مقدس جیسے ہزاروں بچوں اور ان کے سرپرستوں کو آزادی دلوائے گی لیکن میرا اپنا سرد سایہ سورج نے ہڑپ لیا۔
۔۔۔مند میں چوری و ڈکیتی کے واراداتوں میں اضافہ،انتظامیہ خاموش تماشائی۔
مند سول سوسائٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ گزشتہ رات مند کے علاقے کہنک میں مسلح نقاب پوش ڈاکوؤں نے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے فاروق نامی شخص کے گھر میں گھس کر اسلحہ کے زور پر اہلخانہ کو یرغمال بنا کر خواتین کے زیورات اور قیمتی اشیاء کو لوٹ کر فرار ہوگئے جسکی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
۔۔۔گوادر: جیمڑی کے سمندری حدود میں پاکستانی نیوی کے اہلکاروں نے چال بازی اور دھوکے سے ڈیزل سپلائی کرنے والی اسپیڈ بوٹس کو پہلے سے حراست میں لی گئی کشتی کی پوزیشن پر بلا کر ان پر انددھند برسٹ چلا دیا۔ پاکستان نیوی کی فائرنگ سے مغربی بلوچستان کے علاقے باھو دشتیاری کے گاؤں ڈور کا رہائشی نوجوان سہیم ولد علی ڈوری موقع پر جابحق ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔کوئٹہ سریاب سے 4 سال قبل لاپتہ ہونے والا حفیظ بنگلزئی بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔
16 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ کے پہاڑی علاقوں میں بہری، بلوچان، کروچی اور دارگ میں فوجی آپریشن میں آبادیوں پر ہیلی کاپٹروں نے شیلنگ کی اور علاقے میں چرواہوں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا،ان علاقوں میں چرواہوں کی جھونپڑیاں ہیں جو پہاڑوں میں مویشیاں چراتے ہیں۔ پاکستانی فوج نے ان جھونپڑیوں کو راشن اور دیگر اشیاء سمیت نذرآتش کردیا۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے علاقے کولپور سے پاکستانی فورسز نے تین افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
واقعہ گذشتہ روز پیش آیا جب تین افراد سوداگر مری، حبیب خان مری اور طارق مری کوئٹہ کی جانب سفر کررہے تھے۔
ذرائع کے مطابق تینوں افراد پاکستانی عسکری اداروں کے سامنے سرینڈر شدہ ہیں۔ تاہم ماضی میں اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں سرینڈر شدہ افراد کو فورسز جبری طور پر لاپتہ کر دیتے ہیں۔
۔۔۔گوادر: ضلعی انتظامیہ کے مطابق گذشتہ روز ھورماڑہ کے علاقے بزی ٹاپ کے مقام پر حملے کے فوری بعد مکران کوسٹل ہائی وے کو ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند کر کے آپریشن شروع کردیا گیا ہے جو آج بروز جمعہ کو بھی جاری رہا۔
آپریشن میں پاکستان کی بری فوج، پاکستان بحریہ، کوسٹ گارڈز، ایف سی، پولیس کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔
جب کہ آپریشن میں فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹرز کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔
18 اکتوبر
۔۔۔زامران میں بھی جنگلات نذر آتش کردیئے گئے
پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچستان کے مختلف علاقوں کے جنگلات نذر آتش کرنے کے بعد اب زامران کے جنگلات کو بھی آگ لگا دیا گیا۔
ضلع کیچ میں واقع زامران کے مختلف علاقوں مین کور ندی،نوانو،اور سنبلان اورناگ کے جنگلات کو نذرآتش کیاگیا ہے۔
فوج کی جانب سے علاقے کے پانی کے چشموں میں کیمیکل ملانے کی وجہ سے کئی جنگلی جانوروں کی اموات ہوگئی ہے۔
۔۔۔بلوچ گلوکار حنیف چمروک کے قتل کیخلاف کرچی میں احتجاجی مظاہرہ۔
بلوچ یکجتی کمیٹی کراچی کے زیر اہتمام بلوچ شاعر اور گلوکار حنیف چمروک کے قتل کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔احتجاجی مظاہرے میں سماجی کارکنوں، طالب علموں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
19 اکتوبر
۔۔۔تیرہ نومبر کو“یوم شہدائے بلوچ”کے طور پر منایا جائیگا،، بی ایس او آزاد
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ تیرہ نومبر کو بلوچ قومی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس عظیم دن کو بلوچ قوم کے سپوتوں نے میر محراب خان کی قیادت میں بلوچ سرزمین پر یلغار کرنے والی قبضہ گیر کی غلامی کو قبول کرنے کی بجائے مزاحمت کو ترجیح دی اور سرزمین کی حفاظت کے لیے جان کے نذرانے پیش کرکے آئندہ نسل کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ اسی سلسلے میں ہر سال کی طرح اس سال بھی عظیم شہداء کی یاد میں تیرہ نومبر کو“یوم شہدائے بلوچ”کو طور پر منایا جائے گا۔
20 اکتوبر
۔۔۔پاکستانی فوج نے ضلع کیچ کے علاقے تمپ میں ایک نئی فوجی کیمپ قائم کردی ہے۔
پاکستانی فوج نے تمپ کونشکلات کے مقام پر شکاری بازار میں رشید ولد فقیر محمد نامی شخص کے گھروں کو قبضہ میں لے کر نئی فوجی کیمپ میں تبدیل کردیاہے۔
واضح رہے کہ تمپ و گرد و نواح میں پہلے سے متعدد،فوجی کیمپ اور چوکیاں قائم ہیں جہاں اکثر پاکستانی فوج نے لوگوں کے گھروں،اسکولوں کو قبضے میں لے کر ان کو فوجی کیمپوں اور چوکیوں تندیل کردیا ہے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے تمپ ایک بار پھر فوجی آپریشن زد میں، علاقہ مکمل فوجی محاصرے میں،مکینوں پر شدید تشدد،فوج نے گھروں سے قیمتی سامانوں کا صفایا کردیا۔
کیچ کے علاقے تمپ کونشکلات سمیت ملحقہ علاقوں کو پاکستانی فوج نے محاصرے میں لے کر شدید نوعیت کی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔
آپریشن میں نہ صرف پاکستانی فوج علاقہ مکینوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنارہی ہے بلکہ گھروں سے قیمتی سامان بھی لوٹ رہا ہے۔
شہید عرفان بلوچ کے علاوہ فورسز نے استاد مہناج مختار کے گھروں پر چھاپہ مارا، خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گھر کے تمام حصوں کی تلاشی لی گئی۔
21 اکتوبر
۔۔۔جیونی میں غیر قانونی ٹرالرنگ کیخلاف ماہیگیر سراپا احتجاج، کوسٹل ہائی وے بلاک۔
ضلو گوادر کے ساحلی شہر میں گجہ مافیا اور غیر قانونی ٹرالرنگ کے خلاف فشر ورکر یونین جیونی کی کال پر جیونی میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
ماہیگیروں نے غیر قانونی فشنگ کے خلاف جیونی شہر میں ریلی نکالی جوشہر کے مختلف سڑکوں پر گشت کرتی ہوئی کوسٹل ہائی وے پہنچ گئی۔ جہاں ماہیگیروں نے احتجاجاً جیونی کوسٹل ہائی وے کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند کرکے دھرنا دیا جو ہنوز جاری ہے۔
۔۔۔پاکستانی آرمی کے اہلکاروں نے ٹی سی ایس کالونی گوادر میں چھاپہ مار کر تین کمسن بچوں کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام منتقل کیا ہے۔
پاکستان آرمی کے اہلکاروں نے (بدھ) شام تین بجے یہ کارروائی کی جس میں تین بچوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کی عمریں 12 سے16 سال کے درمیان ہیں۔
گوادر میں سرمچاروں اور آزاد بلوچستان کے حق میں چاکنگ کے ردعمل میں یہ کارروائی کی گئی ہے اور انہیں گھر سے اٹھا کر نامعلوم مقام منقتل کیا گیا ہے۔
جو دو بچوں کی گرفتاریاں پاکستانی فورسز کو مطلوب تھیں ان میں سعید کی عمر 13 سال جب کہ سوید کی عمر 14 سال ہے۔ جب سعید کی گرفتاری کے لیے ان کے گھرپر چھاپہ مارا گیا تو اس کے بڑے بھائی 16 سالہ سمیر نے اپنے بھائی کے ساتھ اپنی رضاکارانہ گرفتاری پیش کی اور کہا کہ وہ اکیلے اپنے بھائی کو لے جانے نہیں دیں گے جس پر پاکستانی آرمی کے اہلکار دونوں کمسن بھائیوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
دونوں بچوں کے والد کا نام بابو بتایا جاتا ہے جو ٹی ٹی سی کالونی گوادر کے رہائشی ہیں۔
جب کہ تیسرے بچے کی پہچان سوید کے نام سے ہوئی ہے۔
23 اکتوبر
۔۔۔پاکستانی فوج نے ایک شخص کو پیدارک سے لاپتہ کر دیا،نوجوان کو پاکستانی فوج نے چیک پوسٹ سے حراست بعد لاپتہ کردیا۔
لاپتہ کیے جانے والے نوجوان کا نام طاہر ولد بخشی ہے جو متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرتے ہیں اور وہ اپنی چھٹیوں کے سلسلے میں وطن واپس آ رہے تھے۔
طاہر بلوچ بدھ کے دن نوجوان چھٹی پر کراچی ائرپورٹ آیا اور جمعرات کی صبح تربت پہنچا اور شام کو اپنے گاؤں سری کلگ کے لیے گاڑی میں سوار ہوا تو راستے میں پیدراک کے مقام پر پاکستانی فوج کے لیے کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ نے لوکل وین کو روکا اور اسے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر گاڑی میں سوار خواتین نے مزاحمت کرتے ہوئے انہیں وقتی تحفظ دیا۔
ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے لوگوں کو بتایا کہ طاہر پیدارک کے ایف سی چیک پوسٹ کو مطلوب ہے۔ اس پر وین میں سوار لوگوں نے ان سے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پیدراک کا چیک پوسٹ آگے ہے۔ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار نے اس جواب پر ان کا چیک پوسٹ تک پیچھا کیا جہاں اسے چیک پوسٹ سے اتار کر جبری لاپتا کیا گیا۔
۔۔۔مقبوضہ بلوچستان کے دو مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں مجموعی طور پر تین افراد ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوا ہے۔
بولان کے پہاڑی علاقے اودباش میں مسلح افراد کی فائرنگ سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔
مچھ لیویز کے مطابق بولان کے پہاڑی علاقے ادوباش میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے نصیب اللہ ولد میر حاجی سمالانی نامی نوجوان کو قتل کردیا اور فرار ہوگئے۔
دریں اثنائمستونگ کے علاقے کلی پیرکانو میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے دو افراد امداد شاہ اور نورا ہلاک ہوگئے جبکہ ایک شخص عرفان زخمی ہوا ہے۔
واقعے کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔
24 اکتوبر
۔۔۔پاکستانی فوج کے ہاتھوں نو ماہ قبل لاپتہ ہونے والا شخص بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
تفصیلات کے مطابق 9 ماہ قبل پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والا عزیز اللہ ولد وہاڑی بگٹی گزشتہ روز پاکستانی فوج کے ٹارچر سلوں سے بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔
25 اکتوبر
۔۔۔کوئٹہ میں دھماکے سے 2 ہلاک، 10 زخمی ہوگئے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک جبکہ 10 زخمی ہوگئے۔
میڈیا رپورٹون کے مطابق دھماکا کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ہوا ہے، جس کے بعد ریسکیو، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوع پر پہنچ گئے۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 10 زخمی ہوگئے جبکہ دھماکا خیز مواد موٹرسائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔
26 اکتوبر
۔۔۔بی ایس او کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ نے بلوچ نیشنل مومنٹ میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
بی ایس او آزاد کے سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا کہ انہوں نے کافی سوچ بچار اور دوستوں سے صلاح مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے وہ اپنی سیاسی جدوجہد کو بی این ایم کے فلیٹ فارم سے جاری رکھیں گی۔
۔۔۔کیچ کے علاقے کلاتک میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ایک خاتون جاں بحق ہوئی ہے۔
فائرنگ کا واقعہ گزشتہ شب تربت کے نواحی علاقے کلاتک میں پیش آیا جہاں فائرنگ سے ایک خاتون جان بحق ہوئی
۔۔۔ پنجگور کے علاقے وشبود میں کالے شیشوں والے ویگو گاڑی میں سوار مسلح افراد نے ضمیر ولد محمد نور نامی نوجوان کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے کلبرمیں پاکستانی فوج کی آپریشن جاری،فوج نے آج دو لاش مقامی ہسپتال منتقل کردی تھی۔ابھی اطلاع ملی ہے فوج نے لوگوں کو لاشوں کی شناخت سے روک دی ہے اور لاش پولیس کے حوالے کردیئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ مہینے پاکستان فوج نے جھڑپ میں شہید ہونے والے دو بلوچ سرمچاروں کی لاش ورثا کے حوالہ کرنے کے بجائے ٹریکٹر کے ذریعے گڑھے کھود دفنائے تھے اور ان کو غیرانسانی طریقے سے دفن کرنے میں پولیس نے فوج کی کمک کی تھی اس عمل کے خلاف ورثا اور دیگر تنظیمیں آج تک احتجاج کرر ہی ہیں۔
۔۔۔بی ایس او آزادکا کونسل سیشن یکم تا تین نومبر منعقد کرنے کا اعلان۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بی ایس او آزاد کا پانچواں مرکزی کمیٹی اجلاس زیر صدارت مرکزی چیئرمین سہراب بلوچ منعقد ہوا. اجلاس میں سابقہ رپورٹ,تنقیدی نشست,آئین سازی, تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل پر سیر حاصل بحث ہوئی. شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی کے بعد اجلاس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور مختلف ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث کے بعد مرکزی چئیرمین نے دیوان سے خطاب کیا۔
27 اکتوبر
۔۔۔دشمن فوج کے ساتھ جھڑپوں میں 3 ساتھی شہید ہوگئے، براس۔
بلوچ آزادی پسند مزاحمتی تنظیموں کی امبریلا آرگنائزیشن براس کے ترجمان بلوچ خان نے نامعلوم مقام سے میڈیا میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیچ میں دشمن فوج سے دو مختلف جھڑپوں میں اتحادی تنظیموں کے تین جانباز ساتھیوں نے شہادت قبول کی جبکہ ان مقابلوں میں دشمن کے متعدد اہلکار ہلاک کیئے گئے۔
بلوچ خان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دشمن فوج سے پہلی جھڑپ کیچ کے پہاڑی علاقے کلبر میں مورخہ 25 اکتوبر کو اس وقت ہوئی، جب دشمن نے بھاری تعداد میں براس کے سرمچاروں کو گھیرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر براس کے جانباز سرمچار مبشر ہوت عرف شاہ دوست اور میرجان عرف عاجز نے دشمن کا گھیرا توڑکر گھنٹوں تک جانفشانی سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور اپنے تمام ساتھی سرمچاروں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوئے اور خود طویل مزاحمت کے بعد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
شہید میرجان بلوچ عرف عاجز اتحادی تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ایک کہنہ مشق ساتھی تھے۔ آپ سنہ 2013 سے بلوچ قومی تحریک آزادی میں ایک متحرک اور مثالی کردار ادا کررہے تھے۔ آپ تمپ، دشت اور مند کے محاذ پر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے تھے۔
شہید مبشر ہوت عرف شاہ دوست اتحادی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ایک جانباز ساتھی تھے۔ آپکی بہادری و جرأت اور شعور کی پختگی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ نے مسلح جدوجہد کا آغاز سنہ 2017 سے کی اور تربت، زامران، بلیدہ، کلبر کے محاذ پر دشمن پر کاری ضربیں لگاتے رہے۔
براس ترجمان نے مزید کہا کہ دشمن فوج سے دوسری جھڑپ کل کولواہ کے علاقے آشال میں تب ہوا جب سرمچار معمول کے گشت پر تھے۔ دشمن فوج نے سرمچاروں کو گھیرنے کی کوشش کی لیکن جانباز سرمچار مختار جان عرف کنر نے بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے، دشمن کے متعدد اہلکار ہلاک کرکے اپنے ساتھیوں کو گھیرے سے نکالنے میں کامیاب ہوئے اور گھنٹوں تک دشمن سے دوبدو لڑتے رہے۔ اس طویل مزاحمت میں مختار جان نے بالآخر شہادت قبول کرلی۔
شہید مختار جان عرف کنر اتحادی تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی کے پلیٹ فارم سے گذشتہ پانچ سالوں سے کیچ، کولواہ اور آواران کے محاذ پر متحرک تھے۔ آپ انتہائی مخلص، ایماندار اور بہادر قومی سپاہی تھے۔ قومی تحریک میں آپکی مزاحمتی زندگی اور آپکی قربانی آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔
بلوچ خان نے مزید کہا کہ ان دو مقابلوں میں دشمن فوج کے درجن بھر سے زائد کرائے کے سپاہی ہلاک کیئے گئے، لیکن انہیں گمنام تابوتوں میں بند کرکے گمنام قبروں میں اتارنے کیلئے حسبِ معمول بھیج دیا گیا لیکن شہید سنگت مختار بلوچ، شہید سنگت مبشر ہوت بلوچ اور شہید سنگت میرجان بلوچ اپنی بہادری و جرائت اور مثالی مزاحمت کی وجہ سے نا صرف قوم کے حافظے بلکہ تاریخ میں بھی امر ہوگئے۔
28 اکتوبر
۔۔۔بی این ایم کا 13 نومبر کو یوم شہداء کی مناسبت سے ریفرنسز کے انعقادکا اعلان۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ 13 نومبر کو یوم شہداء کی مناسبت سے یادگاری ریفرنس پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا۔ تمام زونوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ اس دن کو شہدائے بلوچستان کے شایان شان منانے کی تیاری کریں۔
29 اکتوبر
۔۔۔پنجگور میں فوجی آپریشن، متعدد گھر نذر آتش،کئی افراد لاپتہ۔
بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاکستانی فوج کی آپریشن جاری ہے جس میں متعدد گھر نذر آتش اور کئی افرادکی جبری گمشدگی کی اطلاعات ہیں۔
بلوچستان کے ضلع نجگور کے علاقے گوارگو کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج کی آپریشن کاری ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس آپریشن میں پاکستانی فوج کا تشکیل کردہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ بھی شامل ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس آپریشن میں فوج اورڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے متعدد گھر نذر آتش کردیئے جبکہ عورتوں اور بچوں کو شدید تشددکا نشاناہ بنایا گیا ہے۔
30 اکتوبر
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں جاڑین کے مقام پر پاکستانی فورسز اور مسلح افراد میں جھڑپ ہوئی جس میں اسحاق عرف رحمین سکنہ بالگتر گڈگی جانبحق ہوا ہے۔
سوراب گرلز کالج کے قریب کھمبے سے لٹکے ہوئی لاش برامد ہوئی ہے لاش کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ پنجگور کا رہائشی ہے۔
سوراب پولیس کو گرلز کالج کے قریب بجلی کے کھمبے سے ایک لٹکی ہوئی لاش ملی ہے جس کے جیب سے ملنے والے لوکل سرٹیفکیٹ کے مطابق اس کی شناخت ضیاء الرحمٰن ولد عبداللہ بلوچ سکنہ سوردو پنجگور کے نام سے ہوئی ہے
پولیس نے نعش تحویل میں لینیکے بعد ڈی ایچ کیو سوراب منتقل کردیا ہے، تاہم واقعے کے محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
۔۔۔۔بلیدہ میں اسکول نذر آتش کر نے کیخلاف عوام میں شدید غم وغصہ۔
گذشتہ روز بلیدہ کے علاقہ کوچگ چیئرمین عبدالرحمٰن بازار میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں علاقے کی واحد اسکول کو جلانے کے خلاف علاقائی معتبرین کا واقعہ کی شدید ترین الفاظوں میں مذمت اور اسکول انتظامیہ سے اظہار یکجہتی کیا گیا۔
بلیدہ میں ساچ اسکول گلی کیمپس کو نذرآتش کرنے کے خلاف بلیدہ کے عوام اور بلیدہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ اور سربراہوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔
اس موقع پر اساتذہ اور دیگر نے کہا کہ رات کی تاریکی میں علم دشمنوں نے علم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے اسکول کو نذرآتش کرکے ہمارے بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا پیغام دیا ہے لیکن ہمیں تعلیم دشمنوں کے خلاف متحد ہوکر اپنے تعیلمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہے۔
۔۔۔مشکے میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈہاتھوں 2معصوم چرواہے شہید۔
مشکے میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈنے فائرنگ کرکے 2معصوم چرواہے شہید کردیئے۔
بلوچستان کے علاقے وادی مشکے میں مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے 2چرواہوں کوفائرنگ کرکے شہید کردیا اوران کی مویشیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔
مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ ریاستی حمایت یافتہ مسلح ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے یہ کارروائی وادی مشکے کے علاقے زامڑو میں کی جہاں دونوں چرواہوں کو فائرنگ کرکے شہیدکردیا گیاتھا۔
شہید ہونے والے دونوں بھائی بتائے جاتے ہیں جن کی شناخت واجو اور شعیب ولد محمد عمر کے ناموں سے ہوگئی ہے جو چرواہے تھے اور انہیں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ اپنے بھیڑ بکریوں کو چرارہے تھے۔
مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کوریاستی حمایت یافتہ علی حیدر محمد حسنی کے مسلح ڈیتھ اسکواڈنے شہید کرنے کے بعد ان کے مویشیوں کوبھی اپنے ساتھ لے گئے۔
یاد رہے کہ شہید ہونے والے واجو اور شعیب کا تعلق ایک بزرگ بلوچ واجہ ساہو کے خاندان سے ہے۔
کچھ برس پہلے دسمبر کے مہینے میں واجہ ساہوکے خاندان کے 12افرادکو پاکستانی فوج اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے درندگی کے ساتھ قتل کردیا تھا۔اورواجو اور شعیب واجہ ساہوکے بھانجے بتائے جاتے ہیں۔
۔۔۔پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپ میں ایک بلوچ سرمچار شہید ہوا ہے۔
شہید ہونے والے بلوچ سرمچار کی شناخت اسحاق عرف رحمین سکنہ بالگتر گڈگی کے نام سے ہوئی ہے۔
رحمین بلوچ کے بارے میں بتایا جارہا ہے اس کا شمار بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سینئر ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
31 اکتوبر
۔۔۔پاکستانی فوج کی بھاری نفری سائیجی،دڑامب،تلار میں داخل،آپریشن جاری۔
ضلع گوادر سے پاکستانی فوج کی بڑی تعداد میں سائیجی،دڈامب کی جانب نقل و حرکت، تمام زمینی راستے سیل گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گزشتہ روز شیلنگ،آپریشن جاری،
ہفتہ کے روز پاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے سائیجی،مزن بند،دڑامب کے پہاڑی سلسلوں میں شیلنگ کی ہے۔
دشت اور گوادر کے درمیانی علاقوں میں زمینی فوج کی بھاری نفری پہنچ چکی ہے۔
ضلع گوادر کے علاقے جو دشت سے ملتے ہیں کنڈہ سول میں پاکستانی فوج نے ایک نئی ملٹری کیمپ قائم کر دی ہے جبکہ دڑامب دشت کی جانب آنے والے تمام ندی (کور) اور راستوں پر پاکستانی زمینی فوج کی بھاری نفری پہنچ چکی ہے۔
سائیجی بند، تلار،کوڈان،زریں بگ،دڑامب پاکستانی زمینی فوج کی بھاری نفری پہنچنے کے ساتھ آپریشن کی اطلاعات ہیں۔
٭٭٭