آئی جی سندھ کے اغوا پر رینجرز و آئی ایس آئی ملوث ، سزا سے مبرا قرار

0
286


پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ گذشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی کراچی میں حراست اور اس سے قبل سندھ کے انسپکٹر جنرل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان میں ملوث پاکستان رینجرز اور فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے متعلقہ افسران کو انھیں تفویض کی گئی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا گیا ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کے تحفظات پر فوج کے سربراہ کے احکامات پر کی جانے والی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ آئی جی سندھ کو زبردستی ان کے گھر سے لے جائے جانے کے واقعے کی وفاقی حکومت اور وزرا نے مکمل تردید کی تھی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق بانی پاکستان کے مزار کی ‘بے حرمتی’ کے واقعے پر آئی ایس آئی اور رینجرز پر فوری اقدامات لینے کے لیے شدید عوامی دباو¿ تھا۔

کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی اور رینجرز کے حکام نے ا±س واقعے پر ‘پولیس کی سست روی’ کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی افسران زیادہ مناسب طریقے سے اقدامات لے سکتے تھے اور اگر وہ تحمل اور سمجھداری سے کام لیتے تو کوئی نامناسب واقعہ پیش نہ آتا اور ریاست کے دو اداروں کے درمیان غلط فہمی نہ ہوتی۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کے مطابق متعلقہ افسران کو ضابطوں کی خلاف ورزی پر ان کی موجودہ تعیناتی سے ہٹا دیا گیا ہے اور باقی معاملات اب جی ایچ کیو میں بھیج دیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن صفدر کو 19 اکتوبر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا تاہم اسی شام ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی میں ‘سیکٹر کمانڈر’ کے دفتر لے جایا گیا جہاں ا±ن سے زبردستی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کراچی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کور کمانڈر کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے سے منسلک حقائق کا تعین کریں اور 10 روز میں رپورٹ پیش کریں۔

مریم نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی میں ‘سیکٹر کمانڈر’ کے دفتر لے جایا گیا جہاں ا±ن سے زبردستی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے تھے۔

سندھ حکومت کی جانب سے بھی 22 اکتوبر کو کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے اور پولیس کی اعلیٰ قیادت سے ’بدسلوکی اور توہین‘ کی تحقیقات کے لیے وزارتی کمیٹی قائم کی گئی تھی جسے اپنی تحقیقاتی 30 روز میں جمع کروانی ہے۔

اس سے قبل پیر کو سندھ پولیس نے کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں درج ایف آئی آر کو ’جھوٹا‘ قرار دیتے ہوئے اسے خارج کر دیا تھا۔

پولیس کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں مو¿قف اختیار کیا گیا ہے کہ جب پولیس کی جانب سے مدعی کے موبائل فون ریکارڈ کے ذریعے واقعے کے روز کی لوکیشن معلوم کی گئی تو وہ وقوعے کے مقام کی نہیں تھی۔

تفتیشی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں پولیس کی جانب سے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج ریکارڈنگ کا بھی معائنہ کیا گیا تاہم اس بغور جائزے کے بعد اس میں بھی مدعی کی موجودگی ظاہر نہیں ہو سکی جس کے بعد مدعی کی جانب سے واحد قابلِ دست اندازی دفعہ جھوٹی ثابت ہوتی ہے اور اس طرح اس ایف آئی آر کو خارج کر دیا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here