امریکی شہری منگل کے روز (آج) اپنے 46 صدر کو منتخب کرنے یا 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب تک 9 کروڑ 40 لاکھ کے قریب امریکی شہری پہلے ہی ووٹ دے چکے ہیں، سیاسی پنڈت اب بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ معرکہ کون مارے گا اور ڈیموکریٹ جو بائیڈن کے کلین سویپ کرنے سے موجودہ ریپبلکن صدر کی واضح کامیابی تک پیش گوئیوں میں تضاد ہے۔
اس غیر یقینی کی وجہ صرف ایک یعنی عالمی وبا کووِڈ 19 ہے، جنوری میں محض چند امریکیوں نے ہی کورونا وائرس کا نام سنا تھا جبکہ 2 نومبر تک یہ وائرس امریکا میں 2 لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کو لقمہ اجل اور 92 لاکھ تک کو متاثر کرچکا ہے۔
چوں کہ وائرس کا پھیلاو¿ دوبارہ شروع ہوگیا ہے اس لیے دنیا کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افرادکی طرح امریکیوں کی توجہ اس بات پر ہے کہ اس مہلک وائرس کو کس طرح شکست دی جاسکتی ہے۔
انتخابی دن کے پیغام میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے کہا کہ ’میرا آپ سے وعدہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر امریکی کی محفوظ اور مفت کووِڈ 19 ویکسین تک رسائی ہو‘۔
دوسری جانب امریکی صدر کی ٹوئٹ میں ان کی اپنی ذاتی شخصیت کے بارے میں تھی جس نے انہیں تمام تر پیش گوئیوں کے خلاف 2016 میں کامیابی دلائی تھی اور امید ظاہر کی کہ ایسا دوبارہ ہوگا۔
انتخاب کس حد تک اتار چڑھاو¿ والا ہوسکتا ہے اس کا اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ امریکا کے متعدد شہروں میں عمارتوں پر بورڈ لگا دیے ہیں اس میں نیویارک شہر اور وائٹ ہاو¿س کے اطراف کے متعدد علاقے شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ لاس اینجلس کے بیورلے ہلز میں خریداری کا معروف ترین مقام روڈیو ڈرائیو منگل کے روز بند رہے گا۔
جو کوئی بھی امریکی انتخاب جیتے گا اس کے لیے پہلے ہی کچھ ریکارڈز منتظر ہیں اور وہ یہ کہ یہ پہلا انتخاب ہے جو عالمی وبا سے متعلق پابندیوں کے تحت ہورہا ہے جس نے سماجی روابط، گھر گھر جانے والی مہم اور سیاسی ریلیاں روک دی تھیں سوائے چند ایک کہ جو ڈونلڈ ٹرمپ نے کووِڈ 19 پابندیوں سے انحراف کرتے ہوئے نکالیں۔
تاہم پابندیوں کے باوجود اور شاید انہی کی وجہ سے حالیہ انتخاب ایک صدی سے زائد عرصے میں سب سے بلند ٹرن آو¿ٹ حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
یونیورسٹی آف فلوریڈا کے ایک پروفیسر جو امریکی الیکشن پروجیکٹ چلا تے ہیں، نے اس امید کااظہار کیا کہ 1908 کے بعد سب سے بلند یعنی 65 فیصد ٹرن آو¿ٹ کی توقع ہے۔
ان کے پروجیکٹ کے مطابق اتوار کے روز تک 9 کروڑ 31 لاکھ 31 ہزار 17 افراد پہلے ہی ووٹ دے چکے ہیں جو 2016 کے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹ کی 2 تہائی تعداد میں زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ 2016 کے انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی جس میں 13 کروڑ 65 لاکھ افراد سے رائے دہی میں حصہ لیا تھا جبکہ 9 کروڑ 20 لاکھ افراد نے اس عمل میں شامل ہونے سے گریز کیا تھا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں امریکا میں 23 کروڑ 92 لاکھ 47 ہزار 182 افراد ووٹ ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں جن میں سے ڈیڑھ کروڑ ’تاریخ میں پہلی مرتبہ‘ ووٹ ڈالیں گے۔
واشنگٹن تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا کا آئندہ صدر منتخب کرنے میں آزاد ووٹرز اور نام نہاد سوئنگ ریاستیں(جہاں کسی جماعت کی اکثریت نہیں اور نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں) فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔
پیو کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں رجسٹرڈ ووٹرز کے ایک تہائی یعنی 34 فیصد آزاد ووٹرز ہیں جبکہ 33 فیصد ڈیموکریٹس اور 29 فیصد ریپبلکنز ہیں جبکہ تمام رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 49 فیصد یا تو ڈیموکریٹس ہیں یا اس کی طرف جھکاو¿ رکھنے والے جبکہ 44 فیصد یا تو ریپبلکنز ہیں یا ان کی جانب جھکاو¿ رکھنے والے ہیں۔
اس کے علاوہ مجموعی ووٹرز میں سب سے بڑی یعنی 69 فیصد تعداد غیر ہسپانوی سفید فام امریکیوں کی ہے جس کے بعد سیاہ فام اور ہسپانوی ووٹرز 11 فیصد ہیں جبکہ مختلف نسلی اور لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد تقریباً 8 فیصد ہے۔
حالیہ انتخابات میں کووِڈ 19 کے ساتھ ساتھ 2 بڑے مسائل اور بھی ہیں جن میں سے ایک ہیلتھ کیئر اور دوسرا معیشت ہے اور دونوں عالمی وبا سے منسلک ہیں۔