فرانسیسی پولیس کے مطابق فرانس کے شہر نیس میں چاقو کے ذریعے ہونے والے ایک حملے میں اب تک کم از کم تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
نیس کے میئر کرسٹین ایسٹروسی نے واقعے کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے الزام میں ایک شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس حملے میں ایک شخص کے مضروب ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والی ایک خاتون کا سر قلم کیا گیا جبکہ میئر نے اسے ’اسلامو فاشزم‘ قرار دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ادارے نے قتل کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
کرسٹین کے مطابق اس حملے کے تمام تر شواہد دہشت گردانہ حملے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
نیس کے میئر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا ہے کہ جب جائے وقوعہ سے مشتبہ حملہ آور کو گرفتار کیا گیا تو وہ لگاتار اونچی آواز میں ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں چرچ کا ایک نگران بھی شامل ہے۔
فرانس کے وزیر داخلہ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرہ علاقے کی جانب سفر کرنے سے گریز کریں۔ اس واقعہ کے بعد فرانس کی وزارت داخلہ کی ایک ہنگامی میٹنگ بھی طلب کر لی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق جائے وقوع کے قریب سے ہی ایک شخص کو دس منٹ کے اندر اندر حراست میں لے کر ہسپتال منتقل بھی کیا گیا ہے۔
میئر نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے اس گرجا گھر میں ملازم تھا۔ حملے کے وقت لوگ عمارت کے اندر عبادت کر رہے تھے۔ اس دوران ایک عینی شاہد نے شہر میں خاص حفاظتی نظام کے تحت خطرے کی گھنٹی بجا کر سب کو اطلاع دی۔
جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت فرانس کی قومی اسمبلی کی کارروائی بھی جاری تھی اور اس حملے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے قومی اسمبلی میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
قومی اسمبلی میں وزیر اعظم جین کیسٹیکس کا اس حملے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’کسی شک کے بغیر یہ ہماری ملک کو درپیش ایک انتہائی سنگین نیا چیلینج ہے۔‘
فرانس میں مسلمانوں کی کونسل نے نیس چاقو حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے ہمدردی ظاہر کی ہے۔
اس سے قبل 14 جولائی 2016 کو نیس ہی میں ایک 31 سالہ شخص نے اپنا ٹرک ایک عوامی ہجوم پر چڑھا دیا تھا جس کے نتیجے میں 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعہ کو فرانس کی حالیہ تاریخ کا بڑا دہشت گردی کا واقعہ گردانا جاتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں پیرس کے قریب ایک استاد کو پیغمبر اسلام کے متنازع خاکے دکھانے پر قتل کیا گیا تھا۔ سر قلم کرنے کے اس واقعے کے بعد فرانس میں تناو¿ بڑھ گیا ہے اور فرانسیسی حکومت نے انتہا پسند اسلامی عناصر کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ترکی اور دیگر مسلم ممالک نے یہاں مسلمانوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش ظاہر کی ہے۔
ترک صدر طیب اردوغان نے فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت کشیدہ ہوئی جب طنزیہ میگزین چارلی ایبڈو میں اردوغان سے متعلق کارٹون شائع کیا گیا۔