پی ڈی ایم کوئٹہ جلسہ : اب بلوچستان میں گمشدگیاں نہیں ہونگی، مریم نواز

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا تیسرا جلسہ کوئٹہ میں جاری ہے۔ اپوزیشن رہنماو¿ں کی جانب سے تقاریر میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی جا رہی ہے۔

اپوزیشن رہنماو¿ں میں سے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر رہنما جلسہ گاہ میں موجود ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اس وقت انتخابی مہم کے سلسلے میں گلگت بلتستان میں موجود ہیں جہاں سے وہ آج کے جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔

جلسے میں آفتاب احمد خان شیرپاو¿، محمود خان اچکزئی، میاں افتخار حسین، مولانا عبدالغفور حیدری، پروفیسر ساجد میر اور دیگر رہنما بھی موجود ہیں۔

پی ڈی ایم کے جلسے میں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور موبائل سروس بھی معطل ہے۔

مسلم لیگ ن کے نائب صدر مریم نواز نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے کچھ طلبا جن کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ دیے انھوں نے میرا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق مجھے جتنے پنجاب کے طلبا عزیز ہیں اتنے ہی بلوچستان کے طلبا عزیز ہیں۔

وہ بچے بارہ دن سے سڑکوں پر رل رہے تھے مگر کسی کو ان پر کوئی رحم نہ آیا۔ امید کرتی ہوں کے ان کے سکالرشپ بحال ہوں گے۔

مجھ سے کسی صحافی نے ہوٹل میں مجھ سے یہ سوال پوچھا کہ آپ نے جو بلوچی لباس پہنا ہے اس سے آپ کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو میرا جواب تھا کہ جتنی محبت مجھے پنجاب کے لوگوں سے ہی اس سے بھی زیادہ محبت بلوچستان کے لوگوں سے ہے۔

مریم نواز نے لاپتہ افراد کے بارے میں بات کی اور اس طرح جبری گمشدگیوں کی مذمت کی۔

انھوں نے کہا آج ہی مجھے ایک لڑکی حسیبہ قمبرانی نے بتایا کہ ان کے تین جوان بھائیوں کو گھروں سے اٹھا لیا گیا اور تین سال ہو گئے ہیں کہ ان کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اس نے اپنے موبائل فون میں ان تین بھائیوں کا سہارا تھا۔

مجھے آپ نے جیل میں ڈالا تو میری آنکھوں میں آنسو نہیں آیا، میری ماں مر گئی میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے، میرے باپ کو آپ نے دو بار جیل میں ڈالا، میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے مگر آج جب حسیبہ نے اپنے بھائیوں کی تصاویر دکھائیں تو میری آنکھوں میں آنسو آئے۔

مریم نواز کا کہنا ہے کہ راتوں رات باپ کے نام سے ایک پارٹی بنائی گئی، اس پارٹی نے ایک بچے کو جنم دیا اور اگلے ہی دن اسے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔

ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ سالوں پہلے انسانیت سوز واقع یاد آ گیا۔

انھوں نے کہا کہ ہوٹل میں میرے کمرے کا دروازہ توڑا گیا۔ انھوں نے بلوچستان کے لوگوں سے پوچھا کہ کیا ایسی روایات ہیں کہ ماو¿ں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟

انھوں نے اکبر بگٹی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے شیم شیم کے نعرے بھی لگوائے۔

جب پرویز مشرف کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تو وہ عدالت ہی ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد پھر انھوں نے شیم شیم کے نعرے لگوائے۔

مریم نواز نے کہا مجھے آج قائد اعظم کو وہ الفاظ یاد آگئے کہ پالیسیاں بنانا آپ کا کام نہیں ہے۔ یہ عوامی نمائندوں کا کام ہے یہ کام انھیں ہی کرنے دیں۔ اس کے بعد انھوں نے پوچھا کہ کیا سیاست میں مداخلت بند ہوئی، کیا آئین کا احترام کیا گیا، کیا عوامی نمائندوں کا حکم مانا گیا۔

قائد اعظم کی روح بھی دیکھ رہی ہے کہ ان کی تلقین کو مٹی میں ملا دیا گیا۔

انھوں نے کسی شخصیت یا ادارے کا نام لیے بغیر کہا کہ ’اپنے حلف کی پاسداری کرو، سیاست سے دور ہو جاو¿، عوام کے نمائندوں کو حکمرانی کرنے دو، عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکے مت ڈالو، حکومت کے اوپر حکومت مت بناو¿۔‘

انھوں نے کہا حاکم کے گریبان پر آپ کا نہیں کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو نہیں کسی اور کو جوابدہ ہوتا ہے۔ اسے ہٹانے اور بٹھانے کا اختیار آپ کے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔

میں آپ کو اور کوئٹہ کے عوام کو مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں، مجھے آج قاضی محمد عیسیٰ کی یاد آتی ہے جو قائد اعظم کا قریبی ساتھی تھا۔ آج اس کا قابل فخر بیٹا قاضی فیض عیسیٰ سپریم کورٹ کا جج ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی تھا۔ انھوں نے کہا کہ ججز کے خلاف اس سازش کے بعد عمران خان اور ان کی حکومت کو استعفی دینا چائیے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی انصاف دیجئے۔ جو سچ بولنے کی پاداش میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ تمھاری دو سال کی نہیں تمھاری 72 سال کی محنت ضائع ہونے کی ہے۔

اب عوام کی حاکمیت کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔

مجھے الف لیلیٰ کے ایک اور کردار کا نام یاد آ رہا ہے۔ اس کا نام ہے عاصم سلیم باجوہ، جو یہاں کا بادشاہ رہا ہے۔ وہ یہاں ووٹ کی عزت دو سے کھیلتا رہا ہے۔ وہ یہاں بھی سیاسی کرتب دکھاتا رہا ہے۔ وہ بھی ماں اور باپ کے نام سے سیاسی پارٹیاں بناتا رہا ہے۔

نوکری پیشہ ہونے کے باوجود آپ کے پاس اربوں کھربوں کے اثاثے کہاں سے آئے تو وہ چپ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ یہ پیزا کیا ہے تو وہ چپ، ہم پوچھتے ہیں کہ یہ نناویں کمپنیاں کہاں سے آئیں تو وہ چپ، ہم پوچھتے ہیں کہ آپ نے ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں جو جعل سازی کرائی تو ہو چپ۔

عاصم سلیم اب ایسا نہیں چلے گا۔ رسیدیں تو دکھانی ہوں گی۔ چیئرمین سی پیک کے عہدے سے بھی استعفیٰ دو کیونکہ اربوں کھربوں کے منصوبے کا کام آپ جیسے داغدار شخص کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب یہاں غداری کے سرٹیفیکٹ نہیں بٹیں گے۔

اب یہاں سے گمشدگیاں نہیں ہوں گی۔ ہیلی کاپٹر سے آپریشن نہیں ہوں گے۔ کسی کو ووٹ کی عزت سے کھیلنے کا حوصلہ نہیں ہو گا۔

Share This Article
Leave a Comment