آذربائیجان و آرمینیا جنگ میں5ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں، پوتن

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو قرہباخ کے تنازع پر حالیہ جھڑپوں کے دوران اب تک تقریباً پانچ ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اموات کی یہ تعداد دونوں ممالک کی جانب سے بتائی گئی اموات کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

پوتن کا کہنا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے سربراہان اور عہدیداروں سے دن میں کئی مرتبہ رابطہ کرتے ہیں اور یہ کہ روس اس تنازع میں کسی ایک ملک کی حمایت نہیں کر رہا۔

صدر پوتن کا کہنا تھا کہ ماسکو اس مسئلے پر ترکی سے اختلاف رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تنازع میں ترکی آذربائیجان کی حمایت کر رہا ہے۔

روسی صدر نے امریکہ سے بھی اس خطے میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ناگورنو قرہباخ تنازع سے متعلق آرمینیا اور آذربائیجان ایک دوسرے پر جنگ بندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ ماہ سے اس علاقے میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ عالمی سطح پر ناگورنو قرہباخ کو آذربائیجان کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے لیکن یہاں آرمینیائی نسل کے افراد اکثریت میں آباد ہیں۔

سنہ 1994 میں اس علاقے پر چلنے والی چھ سالہ لڑائی جنگ بندی کے اعلان پر اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ان حالیہ جھڑپوں کو بدترین تصویر کیا جا رہا ہے۔

روس آرمینیا کے ساتھ ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہے اور روس کا آرمینیا میں ایک فوجی اڈہ بھی ہے۔ لیکن دوسری جانب آذربائیجان کے ساتھ بھی روس کے اچھے تعلقات ہیں۔

ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک میٹنگ میں روسی صدر نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں میں بہت سی اموات ہوئی ہیں۔ ’دونوں طرف دو، دو ہزار سے زیادہ۔۔۔ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔‘

اس سے قبل آرمینیا اور آذربائیجان کی جانب سے فراہم کردہ سرکاری اعداد و شمار کے تحت اس تنازع میں ہونے والی ہلاکتیں ایک ہزار سے کم تصور کی جا رہی تھی۔

ناگورنو قرہباخ کے خود ساختہ حکام نے آگاہ کیا تھا کہ 27 ستمبر سے اب تک 874 فوجی اور 37 سویلین ہلاک ہو چکے ہیں۔ آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس کے 61 سویلین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اس نے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ظاہر نہیں کی۔

پوتن کا کہنا تھا کہ وہ آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشنیان اور آذربائیجان کے صدر الہام کے ساتھ ’مسلسل رابطے‘ میں ہیں اور صرف کسی ایک ملک کا ساتھ نہیں دیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں ان سے ایک دن میں کئی مرتبہ فون پر بات کرتا ہوں۔’

پوتن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازع پر ترکی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ترک صدر اردوغان ‘شاید سخت لگتے ہیں لیکن وہ ایک لچکدار سیاستدان ہیں اور روس کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔’

ترکی نے آذربائیجان سے کہا ہے کہ اگر وہ مطالبہ کریں گے تو انھیں ترک سپاہی اور فوجی امداد دی جائے گی۔

صدر پوتن نے امریکہ سے بھی تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار کرنے کی اپیل کی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان واشنگٹن میں جمعے کو بات چیت ہونے جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے حکام اس روز امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کریں گے۔

امریکہ، روس اور فرانس اس اتحاد کا حصہ ہیں جنھوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

Share This Article
Leave a Comment