انسانی حقوق کی سرگرم کارکن حوران بلوچ نے بلوچ لائیوز میٹر ( بی ایل ایم ) کے زیر اہتمام حنیف چمروک کے قتل کے خلاف شال پریس کلب پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکام سے بلوچ فنکار حنیف چمروک کے قاتلوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے بہاو¿الدین ذکریا یونیورسٹی کے پیدل لانگ مارچ کرنے والے طلباءکے مطالبات ماننے پر بھی زور دیا۔
حنیف چمروک معروف سماجی کارکن اور بی ایچ آر او کی سابقہ چیئرپرسن طیبہ بلوچ کے والد تھے جنہیں تربت میں ان کے میوزک کلب کے سامنے نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔
اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے حوران بلوچ کا کہنا تھا کہ 8 اکتوبر 2020 کی رات دس بجے کے قریب بلوچستان کے ضلع کیچ میں ایک انتہائی افسوسناک واقع پیش آیا تھا، جب چند نامعلوم مسلح افراد نے ایک مقامی فنکار حنیف چمروک کو فائرنگ کرکے اس وقت قتل کیا جب وہ آٹھ دیگر افراد کے ہمراہ اپنی رہائش گاہ کے باہر بیٹھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ اپنے طرز کا پہلا واقع ہرگز نہیں ہے۔ کیچ کے زخم رسیدہ سینے نے آرٹ اور فن کے ایسے کئی انمول کردار لہو میں لت پت دیکھے ہیں جن میں اہینہ شاہین ایک حالیہ اور قریبی مثال ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان میں تواتر کے ساتھ جاری ظلم و زیادتی کے ایسے واقعات اب بلوچوں کے لیے معمول بن چکے ہیں۔ چاہے وہ شہید ملک ناز اور شہید کلثوم کی میتوں پر ان کے نومولود بچوں کی درد بھری سسکیاں ہوں یا پھر شہید حیات بلوچ کے لہو میں تر اس کا قلم اور اس قلم سے وابستہ اس کے بوڑھے ماں باپ کے ارمان اور خواب ہوں، ہم بارہا یہ عرض کر چکے ہیں کہ ہمارا خون، ہمارا درد اور ہمارا قتل ایک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتہائی رنج کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ شہید حنیف چمروک انسانی حقوق کی تنظیم "بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن” کے سابقہ وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ کے والد تھے۔ طیبہ بلوچ ایک عرصہ سے مستقل بلوچ مسنگ پرسنز کے لیے آواز اٹھاتی آرہی ہیں۔ مگر ایسا کہا گیا ہے انہیں ایک سال سے بعض حلقوں کی جانب سے تنبیہ کیا جارہا تھا کہ اگر وہ اپنی سماجی سرگرمیاں بند نہ کریں تو ان کے خاندان کو نقصان پہنچایا جائے گا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی سماجی سرگرمیوں میں شمولیت سے کچھ حد تک کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔
انہوں نے پولیس کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی کیچ کے بقول حنیف چمروک کے قاتلوں کو اب تک اس لیے نہیں پکڑا گیا ہے کیوں کہ اس واقعے کی تحقیقات مختلف پہلوو¿ں سے ہورہی ہے۔ ان کے مطابق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی بتایا جائے گا کہ آیا یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا یا پھر اس کے پیچھے کچھ اور محرکات تھے۔ لیکن اب المیہ یہ ہے کہ باقی تمام بلوچ شہداءکی طرح حنیف چمروک بھی ایک بلوچ ہیں اور یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس سے قبل ضلع کیچ میں کس واقعے کی تفتیش ملزمان کی سزا پر اختتام پذیر ہوئی ہے؟ جن لوگوں نے حال ہی میں سینہ تھان کر جن گھروں کی رونقیں اجھاڑ دیں، انہیں کیوں اب تک انصاف نہیں دیا جارہا؟ ان کے قاتل اب تک عوام کے سامنے کیوں پیش نہیں کئے جارہے۔ وہ کون سے محرکات ہیں جن کے پیچھے اب تک نظام حکومت قاتلوں کی شناخت میں ناکام ہے؟
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم حکومت بلوچستان اور تمام متعلقہ اداروں سے نا صرف اپنے سوالات کے جوابات چاہتے ہیں بلکہ حنیف چمروک سمیت ان تمام شہداءکے قاتلوں کو پھانسی دینے کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں۔ نیز ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پنجاب کے سڑکوں پر سراپا احتجاج بلوچ طلباءکو بلاوجہ مزید دشواریوں سے نا گزارا جائے اور ان کے مطالبات پورے کئے جائیں۔
بہاو¿الدین ذکریا یونیورسٹی کے لانگ مارچ کرنے والے طلباءکی حمایت میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہونے والی ان گنت ذیادتیوں اور ناانصافیوں سے آپ پہلے ہی آگاہ ہیں، جن میں سے ایک حالیہ باب ملتان کے بہاو¿الدین ذکریا یونیورسٹی میں بلوچستان کے سکالرشپس کا خاتمہ ہے، جن کی بحالی کے لیے بلوچ طلباءچند دنوں سے مسلسل لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ بلوچ طلباءمعیاری تعلیم کے لیے سخت ترین معاشی مسائل کے باوجود مجبوری میں ہزاروں میل دور پنجاب کا رخ کرتے ہیں کیوں کہ بلوچستان کی بدترین تعلیمی صورتحال ہمارے سامنے عیاں ہے۔ اور اب ان حالات میں پنجاب کے تعلیمی ادارے غریب بلوچ طلباءکے لیے بند کرنا حکومت وقت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔