انڈیا کے ساتھ جاری حالیہ تناو¿ کے دوران ، چینی صدر شی جن پنگ نے ایک ‘نئے جدید سوشلسٹ تبت’ کی تعمیر کی کوشش پر زور دیا ہے۔ اس سے قبل چینی وزیر خارجہ وانگ یی تبت گئے تھے اور انڈیا کی سرحد کے ساتھ جاری تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیا تھا۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین شی جن پنگ نے بیجنگ میں تبت سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ باتیں کیں۔ انھوں نے کہا کہ چین کو تبت میں استحکام برقرار رکھنے اور قومی اتحاد کے تحفظ کے لیے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
چین نے سنہ 1950 میں تبت پر اپنا کنٹرول قائم کیا تھا۔
ناقدین جو جلاوطن روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ‘چین نے تبت اور وہاں کی ثقافت کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کیا۔’
تبت کی آئندہ حکمرانی کے بارے میں کمیونسٹ پارٹی کے سینئر ارکان کے اس اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ نے کامیابیوں اور فرنٹ لائن پر کام کرنے والے افسران کی تعریف بھی کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ خطے میں اتحاد کو بڑھانے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شی جن پنگ نے اجلاس میں کہا کہ ’تبت کے سکولوں میں سیاسی اور نظریاتی تعلیم پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے تاکہ چین کے ساتھ محبت کا بیج وہاں کے ہر جوان کے دل میں بویا جا سکے۔’
شی جن پنگ نے کہا کہ تبت میں کمیونسٹ پارٹی کے کردار کو مستحکم کرنے اور نسلی گروہوں کو بہتر طور پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں انھوں نے کہا کہ ‘ہمیں متحد، خوشحال، مہذب، ہم آہنگ اور خوبصورت، جدید، سوشلسٹ تبت بنانے کا عہد کرنا ہو گا۔’
انھوں نے کہا ‘تبتی بدھ مت کو بھی سوشلزم اور چینی حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔’
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ‘اگر چین نے واقعتاً تبت کو اتنا فائدہ پہنچایا ہے جتنا اجلاس میں شی جن پنگ نے دعوی کیا ہے تو چین کو علیحدگی پسندی کا خوف نہ ہوتا اور نہ ہی چین تعلیم کے ذریعہ تبت کی عوام میں ’نیا سیاسی شعور‘ پیدا کر سکتا ہے۔
چین اور امریکہ کے تناو¿ کے درمیان تبت پر بھی بات ہوئی۔
جولائی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ ’چینی سفارتی رسائی کو روکنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہونے‘ کے لیے کچھ چینی عہدیداروں کے ویزوں پر پابندی عائد کرے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ تبت کی ‘معنی خیز خودمختاری’ کی حمایت کرتا ہے۔
یہ دور دراز علاقہ جہاں کے رہنے والے بنیادی طور پر بدھ مت مذہب پر یقین رکھتے ہیں کو ‘دنیا کی چھت’ بھی کہا جاتا ہے۔ تبت کو چین کا خودمختار علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ صدیوں سے اس علاقے پر اس نے خود مختاری حاصل کی ہے، جب کہ بہت سے تبتی باشندے اپنے جلاوطن روحانی پیشوا دلائی لامہ سے وفاداری رکھتے ہیں۔
جب دلائی لامہ کے پیروکار ان کو ایک زندہ خدا کے طور پر دیکھتے ہیں تو چین انھیں علیحدگی پسند خطرہ سمجھتا ہے۔
تبت کی تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔ کبھی وہ ایک خودمختار علاقے کی حیثیت سے رہا اور کبھی منگولیا اور چین کے طاقتور خاندانوں نے اس پر حکومت کی۔
سنہ 1950 میں چین نے اس علاقے پر اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے ہزاروں فوجی بھیجے۔ تبت کے کچھ علاقوں کو خودمختار علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا اور باقی علاقوں کو اس سے ملحق چینی صوبوں کے ساتھ ملا دیا گیا۔
لیکن سنہ 1959 میں چین کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد چودھویں دلائی لامہ کو تبت چھوڑنا پڑا اور انڈیا میں پناہ لینا پڑی، جہاں انھوں نے جلاوطنی میں حکومت تشکیل دی۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران تبت کی اکثر بدھ مت خانقاہوں کو تباہ کر دیا گیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ ہزاروں تبتی باشندے دامان اور فوجی حکمرانی کے دوران ہلاک ہوئے۔
چین اور تبت کے مابین تنازع تبت کی قانونی حیثیت سے متعلق ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ تیرہویں صدی کے وسط سے تبت چین کا حصہ رہا ہے لیکن تبت کے باشندوں کا کہنا ہے کہ تبت کئی صدیوں سے ایک آزاد ریاست تھی اور چین اس پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔
منگول بادشاہ کبلائے خان نے یوان سلطنت کو قائم کیا اور اسے نہ صرف تبت بلکہ چین، ویتنام اور کوریا تک پھیلا دیا۔
پھر سترہویں صدی میں چین کے چنگ خاندان کے تبت سے تعلقات تھے۔ چنگ فوج نے 260 سال کے تعلقات کے بعد تبت سے الحاق کر لیا لیکن تین سال کے اندر تبتیوں نے انھیں پسپا کر دیا اور 1912 میں تیرہویں دلائی لامہ نے تبت کی آزادی کا اعلان کر دیا۔
پھر 1951 میں چینی فوج نے ایک بار پھر تبت پر کنٹرول حاصل کیا اور تبت کے وفد کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت تبت کی خودمختاری چین کے حوالے کر دی گئی۔
دلائی لامہ انڈیا چلے گئے اور تب سے وہ تبت کی خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
جب چین نے تبت پر قبضہ کیا تو اسے بیرونی دنیا سے مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد تبت کی ‘چین کاری’ کا کام شروع ہوا اور تبت کی زبان، ثقافت، مذہب اور روایات سب کو نشانہ بنایا گیا۔
چین تبت تعلقات سے متعلق بہت سارے سوالات ہیں جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتے ہیں۔
جیسے کیا تبت چین کا حصہ ہے؟ چین کے زیر انتظام آنے سے قبل تبت کیسا تھا؟ اور اس کے بعد کیا تبدیل ہوا؟
تبت کی جلاوطن حکومت کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی تنازع نہیں کہ تبت ماضی کے مختلف ادوار میں مختلف غیر ملکی طاقتوں کے زیر اثر رہا۔ منگول، نیپال کے گورکھ، چین کا منچو خاندان اور ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے انگریزوں نے تبت کی تاریخ میں کچھ کردار کیا ہے۔ لیکن تاریخ کے دوسرے ادوار میں یہ تبت ہی تھا جس نے اپنے ہمسایہ ممالک پر طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کیا اور ان پڑوسیوں میں چین بھی شامل تھا۔’
‘آج کی دنیا میں ایسا ملک تلاش کرنا مشکل ہے جس پر تاریخ کے کسی دور میں کسی بھی بیرونی طاقت کا اثر و رسوخ نہ رہا ہو تاہم تبت کے معاملے میں غیر ملکی اثر و رسوخ یا مداخلت بہت کم عرصے سے رہی۔’
لیکن چین کا کہنا ہے کہ ‘چین کو سات سو برس سے زیادہ عرصے سے تبت پر اقتدار حاصل ہے اور تبت کبھی بھی آزاد ملک نہیں رہا۔ دنیا کے کسی بھی ملک نے تبت کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔‘
جون 2003 میں انڈیا نے باضابطہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ تبت چین کا حصہ ہے۔ چینی صدر جیانگ زیمین سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات کے بعد انڈیا نے پہلی بار تبت کو چین کا حصہ قرار دیا۔ جسے دونوں ملکوں کے تعلقات کی لیے اہم اقدام سمجھا گیا۔
واجپائی جیانگ زیمین مذاکرات کے بعد چین نے سکم کے راستے انڈیا کے ساتھ تجارت پر بھی اتفاق کیا جس کے بعد اس اقدام کو ایسے دیکھا گیا کہ چین نے بھی سکم کو انڈیا کا حصہ تسلیم کر لیا ہے۔
انڈین عہدے داروں نے اس وقت کہا تھا کہ انڈیا نے پورے تبت کو تسلیم نہیں کیا، جو چین کا ایک بڑا حصہ ہے بلکہ انڈیا نے صرف اس حصے کو تسلیم کیا ہے جو تبت کے خود مختار خطے کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔