امریکی پابندی باعث ٹک ٹاک کے سی ای او کیون اے میئر مستعفی

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی سروس پر مجوزہ پابندی کے باعث سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او)کیون اے میئر نے استعفیٰ دے دیا۔

خیال رہے کہ معروف انٹرٹینمنٹ کمپنی والٹ ڈزنی کے سابق کنزیومر ڈائریکٹر 58 سالہ کیون اے میئر 2 ماہ قبل ہی ٹک ٹاک کے سی ای او تعینات ہوئے تھے۔

برطانوی خبررساں ادارے ‘ بی بی سی’ کی رپورٹ کے مطابق ملازمین کو لکھے گئے خط میں کیون اے میئر نے کہا کہ ‘حالیہ چند ہفتوں میں سیاسی ماحول میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، میں نے اس حوالے سے اہم عکاسی کی ہے کہ کارپوریٹ ڈھانچے میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی اور ا±س عالمی کردار کے لحاظ سے اس کا کیا مطلب ہے جس کے لیے میں یہاں آیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس پس منظر کے خلاف اور، جیسا کہ ہم بہت جلد کسی حل تک پہنچنے کی توقع کرتے ہیں، میں بہت دکھی دل کے ساتھ آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس حوالے سے ٹک ٹاک کے ترجمان نے کہا کہ ہم آگاہ کے گزشتہ چند مہینوں میں سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس حوالے کیون میئر کا کردار کیا ہوگا لہذا ہم ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ کمپنی میں خدمات انجام دینے پر ہم ان کے شکر گزار ہیں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل ٹک ٹاک نے امریکی حکومت کی جانب سے اپنی سروس پر مجوزہ پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اس حوالے سے ٹک ٹاک نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 6 اگست کے ایگزیکٹیو آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘بغیر کسی شواہد کے اتنا سخت فیصلہ کیا گیا اور وہ بھی مناسب طریقہ کار کے بغیر’۔

خیال رہے کہ 22 اگست کو ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کمپنی کے پاس ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف عدالت میں جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔

بائٹ ڈانس نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکی قوانین ان کی کمپنی اور ان کے صارفین کے ساتھ مناسب برتاو¿ کا تحفظ فراہم کرتے ہیں، اس لیے انہیں اپنے بچاو¿ کا حق حاصل ہے۔

کمپنی کی جانب سے مختصر بیان میں کہا گیا کہ بائٹ ڈانس آنے والے ہفتے کے آغاز میں ہی امریکی عدالت میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف درخوست دائر کرے گی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ 6 اگست کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو آئندہ 45 دن میں اپنے امریکی اثاثے کسی دوسری امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کی مہلت دی تھی۔

صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا اگر چینی ایپلی کیشنز کو آئندہ 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کیا گیا تو ان پر امریکا میں پابندی لگادی جائے گی۔

ٹک ٹاک کو 15 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم بعد ازاں 16 اگست کو ٹرمپ انتظامیہ نے مذکورہ مدت میں مزید 45 دن کا اضافہ کردیا تھا۔

16 اگست کو امریکی صدر کی جانب سے جاری کیے گئے نئے حکم نامے میں قومی سلامتی کے تحفظات کو جواز بناتے ہوئے بائیٹ ڈانس کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ امریکا میں اپنے کاروبار کو اگلے 90 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت کردے۔

امریکی صدر کی جانب سے ٹک ٹاک کے خلاف بندش کے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جانے کے بعد مائیکرو سافٹ، ایپل، ٹوئٹر اور اوریکل نامی امریکی کمپنیوں نے ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے خریدنے میں دلچسپی بھی ظاہر کی تھی۔

امریکی حکومت اور خصوصی طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹک ٹاک کو امریکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں اور انہوں نے امریکی سرکاری عہدیداروں اور فوجی عہدیداروں کے ٹک ٹاک استعمال پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ ٹک ٹاک امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت اور وہاں کی خفیہ ایجنسیز کو فراہم کرتا ہے تاہم ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن، انتظامیہ ان دعوو¿ں کی تردید کرتی ہے۔

TAGGED:
Share This Article
Leave a Comment