لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل میں حزب اللہ بری الذمہ قرار

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

لبنان کے سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات کرنے والے نیدر لینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عدالتی ٹربیونل نے فیصلہ دیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کے قتل میں عسکری گروپ حزب اللہ کی قیادت یا شام کی حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔

لبنان کے سابق وزیرِ اعظم رفیق حریری 14 فروری 2005 کو بیروت میں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک وین نے رفیق حریری کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔

اس حملے میں حریری کے علاوہ مزید 21 افراد ہلاک اور 226 زخمی ہو گئے تھے۔

دھماکے میں ملوث ہونے کے شبہے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن کا تعلق حزب اللہ سے ہے۔

قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے بین الاقوامی ٹربیونل نے منگل کو سنائے جانے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حزب اللہ یا شامی حکومت کا یہ مقصد ہو سکتا تھا کہ رفیق حریری اور ان کے ساتھیوں کو راستے سے ہٹایا جائے۔ لیکن ایسے شواہد نہیں ملے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ حزب اللہ کی قیادت اس حملے میں ملوث تھی۔

خصوصی عدالت کے جج ڈیوڈ ری نے 2600 صفحات پر مشتمل فیصلے کا خلاصہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا ہے کہ یہ شواہد بھی نہیں ملے کہ شام کی حکومت حریری کے قتل میں براہِ راست ملوث تھی۔

البتہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حزب اللہ کے دو اراکین سے متعلق یہ شواہد ملے ہیں کہ ا±ن کے موبائل فون اس کارروائی کے دوران استعمال ہوئے۔

بیروت میں دو ہفتے قبل ہونے والے خوف ناک دھماکے کی وجہ سے اس فیصلے کے اعلان میں تاخیر ہوئی تھی۔ بندرگاہ پر ہونے والے مذکورہ دھماکے کے نتیجے میں 180 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹربیونل کے فیصلے سے لبنان میں ایک نیا تنازع کھڑا ہو سکتا ہے، کیوں کہ رفیق حریری سنی مکتبہ فکر کے اہم سیاست دان سمجھے جاتے تھے جب کہ ایران نواز حزب اللہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔

اس مقدمے کا محور حزب اللہ سے منسلک چار افراد تھے، جن پر الزام تھا کہ وہ اس دھماکے میں ملوث ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ملزم 56 سالہ سلیم عیاش اور 46 سالہ حسین عنیسی کے موبائل فون اس کارروائی میں استعمال ہوئے۔ چاروں ملزمان کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وہ ان شواہد سے مطمئن نہیں کہ حسن حبیب مرعی اور اسد حسان صبرا نامی ملزمان کے فون بھی اس کارروائی میں استعمال ہوئے۔

مذکورہ عدالتی کارروائی کے دوران 415 سماعتیں ہوئیں جب کہ 297 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔ اس ٹرائل کا آغاز 2014 میں ہوا تھا۔

Share This Article
Leave a Comment