بانک کریمہ بلوچ نے جبر کی اصل جڑ کو پنجابی بالادست عسکری ریاست کے طور پر شناخت کیا، ڈاکٹر نسیم بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
12 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ بانک کریمہ بلوچ غیرمعمولی فکری وضاحت اور گہری سیاسی بصیرت کی حامل تھیں۔ لندن میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیرِ اہتمام منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، جو بانک کریمہ بلوچ کے پانچویں یوم شہادت کے موقع پر منعقد کیا گیا، انھوں نے کہا کہ اگرچہ بظاہر بلوچ، سندھی، پشتون اور کشمیری عوام کی تکالیف ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان سب کی اصل وجہ ایک ہی ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا، ’’ اس تمام دکھ اور جبر کے مرکز میں ایک پنجابی بالادست عسکری ریاست کھڑی ہے جو خود کو پاکستان کہتی ہے۔‘‘

اس سیمینار میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اسکالرز اور سیاستدانوں نے شرکت کی، جو بین الاقوامی سطح پر یکجہتی اور حمایت کا مظہر تھا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ ہزاروں میل دور اپنے وطن سے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ مجبوری کے تحت رہ رہی تھیں۔ وطن میں رہنا ناممکن بنا دیا گیا تھا، جس کے باعث انھیں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ تاہم جلاوطنی میں بھی انھوں نے آرام، خاموشی یا ذاتی تحفظ کی تلاش نہیں کی۔

انھوں نے کہا، وہ جلاوطنی میں زندگی کی تلاش میں گئیں — ان ہزاروں بلوچوں کے لیے زندگی جو جبری طور پر لاپتہ کر دیے گئے، اور ان لاکھوں انسانوں کے لیے باعزت زندگی جو آج بھی روزانہ قبضے اور ذلت کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے زور دے کر کہا کہ یہ تکالیف کوئی مجرد یا نظریاتی مسئلہ نہیں بلکہ مظلوم اقوام کی روزمرہ حقیقت ہیں۔کوئی قوم زنجیروں میں جینا نہیں چاہتی۔ کوئی انسان اپنی مرضی سے غلامی قبول نہیں کرتا۔ قبضے کے تحت گزاری گئی زندگی وقار، مقصد اور امید سے محروم ہوتی ہے — اور آزادی حاصل ہونے تک یہی حالت رہتی ہے۔

بانُک کریمہ بلوچ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ اگرچہ ان کی شہادت نہایت المناک اور دردناک تھی، مگر بلوچ قوم اپنے شہداء کو اس انداز میں نہیں یاد کرتی جس کی دنیا توقع کرتی ہے۔ہم اپنے شہداء سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ یہی بانک کریمہ کا بھی یقین تھا۔ شدید دکھ کے باوجود انھوں نے کبھی غم کو اپنے حوصلے پر غالب نہیں آنے دیا۔ نہ وہ پیچھے ہٹیں، نہ انھوں نے ہتھیار ڈالے۔ انھوں نے درد کو مزاحمت اور نقصان کو عزم میں بدل دیا۔

انھوں نے کہا کہ اس برسی کو صرف غم کا دن سمجھنا درست نہیں، بلکہ یہ سیاسی غور و فکر کا دن ہے۔بانک کریمہ بلوچ محض ایک ایسی شخصیت نہیں تھیں جن کی زندگی افسوسناک انجام کو پہنچی۔ وہ خود ایک باشعور سیاسی عمل تھیں۔ ان کی زندگی اور ان کی شہادت نے ریاستی جبر اور اقوام کے انکار کی حقیقت کو بے نقاب کیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بانک کریمہ بلوچ کے قتل پر کینیڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی شہادت اس خطے میں ہوئی جسے دنیا مہذب مغرب کہتی ہے۔ پانچ سال گزر چکے ہیں، مگر ان کے قتل کی حقیقت آج تک سامنے نہیں آ سکی۔ انھوں نے صحافی اور محقق ساجد حسین کا بھی حوالہ دیا، جن کی لاش یورپ میں ملی، اور کہا کہ اس کیس میں بھی انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا، یہ کوئی اتفاق نہیں کہ بانک کریمہ اور ساجد حسین جیسے لوگ جلاوطنی میں قتل کیے جاتے ہیں۔ جلاوطنی خود اس ریاست کی ناکامی کا اعتراف ہے جو مکالمے کی صلاحیت کھو چکی ہے اور صرف تشدد کی زبان جانتی ہے۔ ہم سیاسی کارکن ہیں، ہم نے اپنی سوسائٹی کو پُرامن انداز میں منظم کیا، مگر آج ہم جلاوطن ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر کارکنان صرف مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے تو وہ آج لندن میں نہیں بلکہ بلوچستان کے پہاڑوں میں ہوتے۔پاکستان ہر باشعور فرد کو دشمن سمجھتا ہے، اور اس کے پاس صرف ایک ہی جواب بچتا ہے: جبر۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ مسلح جدوجہد تحریک کا ایک حصہ ضرور ہے، مگر پوری تحریک نہیں۔پاکستان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ وہ ایک جمہوری ریاست نہیں بلکہ ایک عسکری نوآبادیاتی طاقت ہے اور مزید کہا کہ اگر پاکستان نے اس نوآبادیاتی ڈھانچے کو ترک کیا تو اس کی غیر فطری ساخت منہدم ہو جائے گی۔

’’ اسی لیے وہ سوچ کو دباتا ہے، آوازوں کو خاموش کرتا ہے، اور پوری قوموں کو محض بقا کی سطح پر لا کھڑا کرتا ہے — وقار سے محروم اور آزاد سوچ کے حق سے محروم۔‘‘

انھوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ نے اس نوآبادیاتی نظام کو چیلنج کیا، اور اسی ’ جرم‘ کی پاداش میں پہلے انھیں جلاوطن کیا گیا، پھر جلاوطنی میں بھی خاموش کرانے کی کوششیں کی گئیں، اور آخرکار انھیں قتل کر دیا گیا۔

مغربی حکومتوں کو مخاطب کرکے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے دوہرے معیار پر سوال اٹھایا۔اگر یوکرین پر قبضہ جرم ہے، اگر فلسطین میں ظلم کی مذمت کی جاتی ہے، تو پھر بلوچستان، سندھ، پشتونخوا اور کشمیر پر قبضہ کس قانون کے تحت قابلِ قبول ہے؟۔ انھوں نے سوال کیا، کیا انسانی حقوق جغرافیے کے پابند ہیں، یا پاکستان کو اخلاقی اور قانونی احتساب سے خصوصی استثنا حاصل ہے؟

بانک کریمہ بلوچ کے وژن کو دہراتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستانی ریاست صرف زمین پر قبضہ نہیں کرتی۔ یہ ہماری تاریخ پر قبضہ کرتی ہے، ہماری زبان پر قبضہ کرتی ہے، ہمارے وسائل پر قبضہ کرتی ہے، اور ہماری سیاسی خودمختاری پر قبضہ کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس نظام میں عقائد تک آزاد نہیں رہتے۔ مذہب کو بھی عسکری مفادات کے مطابق ڈھالا اور مسلط کیا جاتا ہے۔ جب کوئی ریاست یہ طے کرے کہ آپ کیا مانیں، کیسے عبادت کریں اور کیسے سوچیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ آزادی کہاں باقی رہتی ہے؟

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ شرکاء یہاں صرف بانک کریمہ بلوچ کو یاد کرنے نہیں آئے، بلکہ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ وہ آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ آزادی کی یہی خواہش ہمیں یہاں لائی ہے — وہی آزادی جس کے لیے بانُک کریمہ نے اپنی جان قربان کی۔

انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ آزادی کوئی انتہاپسند خیال نہیں، نہ نفرت ہے اور نہ ہی انتشار۔ “آزادی مقدس ہے، آزادی فطری ہے، اور آزادی انسان کی سب سے بنیادی جبلت ہے۔

اقوام کے درمیان یکجہتی کی امید ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ اگر نوآبادیاتی مفادات کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو ایک باشعور پنجابی بھی بلوچ قومی آزادی کو سمجھے گا اور اس کی حمایت کرے گا۔ بلوچ آزادی کسی دوسری قوم کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ایک وعدہ ہے — اس بات کا وعدہ کہ قبضے کا دور ختم ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ ہمیشہ یاد دلاتی تھیں کہ جب تک مظلوم اقوام اپنی جدوجہد کو الگ الگ سمجھتی رہیں گی، نوآبادیاتی ریاست فائدہ اٹھاتی رہے گی۔پاکستان ہمارے دکھ کو تقسیم کر کے، ہماری مزاحمت کو الگ تھلگ کر کے، اور ہماری تکالیف کو مختلف کہانیوں میں بانٹ کر زندہ ہے۔

’’ ہمیں اس سلسلے کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کی طاقت بننا ہوگا۔ اس کے لیے کسی تحریری معاہدے کی ضرورت نہیں، بلکہ ہمدردی کی ضرورت ہے — یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک قوم کا دکھ سب کا دکھ ہے۔ جب ہمدردی مشترک ہو جاتی ہے تو جدوجہد متحد ہوتی ہے، اور جب جدوجہد متحد ہو جائے تو قبضہ کمزور پڑ جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر نسیم بلوچ کے مطابق بانک کریمہ بلوچ کی سیاست صرف بلوچستان تک محدود نہیں تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان کا بحران کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عسکری نوآبادیاتی ڈھانچے کا نتیجہ ہے جو خود کو فیڈریشن ظاہر کرتا ہے۔

انھوں نے کہا، یہ ایک ایسی ریاست ہے جو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، سندھ میں ماورائے عدالت قتل، پشتون علاقوں میں اجتماعی سزاؤں، اور کشمیر میں فوجی محاصروں کو معمول بناتی ہے۔ یہ غلطیاں نہیں، نہ ہی استثنائی واقعات ہیں، بلکہ ایک نوآبادیاتی نظام کی ناگزیر ضروریات ہیں۔

انھوں نے زور دیا کہ ان پالیسیوں کا سامنا کرنے والے لوگ اقوام ہیں، اقلیتیں نہیں۔ ہم جس چیز کا سامنا کر رہے ہیں وہ بدانتظامی نہیں بلکہ قبضہ ہے۔ بلوچستان میں نسل کشی، قدرتی وسائل کی بے رحم لوٹ مار، دریائے سندھ کا گلا گھونٹنا، پشتون علاقوں میں مذہب کا استعمال، اور کشمیر میں جاری جبر سب دانستہ پالیسیاں ہیں۔

اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بانُک کریمہ بلوچ کی سیاست نفرت پر نہیں بلکہ وقار پر مبنی تھی۔وہ ایک ایسے مستقبل کا خواب دیکھتی تھیں جہاں بلوچ، سندھی، پشتون اور کشمیری عوام اپنی سرزمین پر خود اپنے مقدر کا فیصلہ کریں۔

انھوں نے کہا کہ بانک کریمہ کا پیغام سادہ مگر گہرا تھا: بندوق کے سائے میں حقیقی جمہوریت وجود نہیں رکھ سکتی۔ جمہوریت صرف اقوام کی رضامندی سے جنم لیتی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا، یہ برسی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ جدوجہد کسی ایک نسل تک محدود نہیں۔ یہ ایک تاریخی ذمہ داری ہے۔ جب تک پاکستان کا نوآبادیاتی ڈھانچہ ختم نہیں ہوتا اور مظلوم اقوام آزادی حاصل نہیں کرتیں، اس خطے میں امن ایک سراب ہی رہے گا۔

Share This Article