نامور مصنف ڈاکٹر نصیر دشتی نے لندن میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی طرف سے بانک کریمہ بلوچ کی پانچویں یوم شہادت کی مناسبت سے ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کریمہ بلا شبہ ایک پیش رو کے طور پر یاد رکھی جائیں گی جنھوں نے بلوچ قومی جدوجہد کو مکمل طور پر تبدیل کیا۔تاریخی روایات کے تحت قومی مزاحمت کو برقرار رکھتے ہوئے، بلوچوں نے مختلف طریقوں سے ان طاقتور قوتوں کے خلاف جدوجہد کی جو ان کے قومی وجود کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اس کٹھن جدوجہد میں، بے شمار افراد نے سب کچھ قربان کر دیا، یہاں تک کہ اپنی جانیں بھی۔
انھوں نے اپنے بلوچ قومی مزاحمت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اگر ہم 20ویں صدی کی طرف نظر ڈالیں تو ایک نام فوراً ذہن میں آتا ہے،نواب اکبر بگٹی جنھوں نے بلوچ قومی جدوجہد کی نوعیت کو بنیادی طور پر بدل دیا، اسے محدود قبائلی مزاحمت سے ایک سیاسی تحریک میں تبدیل کیا، جس کی قیادت تعلیم یافتہ متوسط طبقے نے کی اور جس کا مقصد قومی آزادی کا واضح وژن تھا۔
انھوں نے کہا بلا شبہ کریمہ بلوچ وہ شخصیت تھیں جس نے ہزاروں بلوچ خواتین کو قومی تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ کئی لحاظ سے، کریمہ کا بے مثال کردار بلوچ لڑکیوں کے لیے تحریک کا باعث بنا اور انھیں قومی مزاحمت کا حصہ بننے کی ترغیب دی۔ ان کی غیر متزلزل وابستگی کی وجہ سے آج ہم بلوچ خواتین کو قومی جدوجہد کے محاذ پر کھڑا دیکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہا بلوچ سیاسی کارکنوں کے لیے حالات ہمیشہ آسان نہیں رہے۔ آج کے حالات خاص طور پر سخت اور چیلنجنگ ہیں۔ تاہم، کریمہ کی یاد میں، بلوچ قیادت کی موجودہ نسل کو سب سے مشکل اور جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ بلوچ قوم کے لیے باعزت زندگی کا خواب حقیقت میں بدل سکے۔
انھوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا بلوچ قیادت کو کئی اہم مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ قومی مزاحمت کے مسائل صرف ایک متحد اور لگن بھرے جدوجہد کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں، جس کی قیادت دیانت، وطن پرستی اور واضح سیاسی وژن سے مزین ہو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ قوم دوست اپنی حکمت عملیوں کا دوبارہ جائزہ لیں۔ یہ تاریخی ذمہ داری بھی ہے کہ قومی مزاحمت کے باشعور عناصر ایسی پالیسیز اپنائیں جو خطے اور دنیا کے بدلتے حالات کے مطابق ہوں۔