بانک کریمہ کی یاد میں بی این ایم کا سیمینار : پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ کریمہ بلوچ کے قتل کی بھی ذمہ دار ہے،برزین واگھمر

ایڈمن
ایڈمن
11 Min Read

لندن یونیورسٹی میں مطالعہ ایران اور ایس او اے ایس ، ساؤتھ اییشاء سینٹر کے ممبر برزین واگھمر نے پاکستان کے ہیومین رائٹس کے حوالے سے کردار پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق، پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ کے عناصر بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت اور تشدد کو ہوا دینے میں ملوث رہے ہیں، اور پھر اس کا الزام اسی مظلوم اقلیت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہی پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ کریمہ بلوچ کے قتل کی بھی ذمہ دار ہے—ایک ایسا جرم جو کینیڈین حکام کے لیے تو معمہ بنا ہوا ہے، مگر ہم جیسے لوگوں کے لیے نہیں جو اس حقیقت سے برسوں سے واقف ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتے کے روز لندن میں بانک کریمہ کی یاد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ سیمینار بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کی طرف سے بانک کریمہ کے پانچویں یوم شہادت کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا جس میں دانشوروں اور سیاسی کارکنان نے بانک کریمہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اپنے خطاب میں برزین واگمھر کینڈین پولیس کے کردار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا شاید کینیڈین امیگریشن حکام، جو محترمہ کریمہ بلوچ کی موت کے حالات کا تعین نہیں کر سکے، کم از کم پی آئی اے کے کیبن کریو کے پراسرار لاپتہ ہونے کے واقعات کی گتھی ہی سلجھا سکیں—جب قومی ایئر لائن کی پروازیں اب شمالی امریکا میں صرف ٹورنٹو تک محدود رہ گئی ہیں، کیونکہ شکاگو، ہیوسٹن اور نیویارک کی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ خود پی آئی اے نے تسلیم کیا ہے کہ صرف 2025 میں ٹورنٹو–لاہور (PK-784) روٹ پر تین کیبن کریو ارکان لاپتہ ہوئے، جبکہ 2024 میں بھی تین افراد ٹورنٹو–کراچی (PK-784) پر ڈیوٹی کے لیے رپورٹ نہیں ہوئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کو ان دونوں شہروں—چاہے وہ ملک کا ثقافتی مرکز ہوں یا مالیاتی دارالحکومت—سے خاص چِڑ ہے۔

انھوں نے کہا ہم اس پستی تک پہنچ چکے ہیں جہاں بدیہی حقائق کو دہرانا بھی باشعور انسانوں کی اولین ذمہ داری بن چکا ہے۔ اگر آزادی کا کوئی مفہوم ہے تو وہ یہی ہے کہ لوگوں کو وہ بات کہنے کا حق حاصل ہو جو وہ سننا نہیں چاہتے۔ عالمگیر فریب کے ادوار میں سچ بولنا ایک انقلابی عمل بن جاتا ہے۔ جیسا کہ جارج آرویل ہمیں یاد دلاتے ہیں، ان واضح مگر افسوسناک حقیقتوں کو دہرانا ناگزیر ہے—خصوصاً اس وقت جب ہم کریمہ بلوچ کی پانچویں برسی منا رہے ہیں۔

ان کے مطابق بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو حاصل استثنا کی وجہ سے پاکستان نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی بے خوفی سے عمل کرتا ہے، اور بیرونِ وطن بلوچ پرمن امن کارکنوں کو قتل کر کے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ کینیڈا میں کریمہ بلوچ اور سویڈن میں ساجد حسین کے اب تک حل نہ ہونے والے قتل اس امر کو بے نقاب کرتے ہیں کہ متعلقہ حکومتیں اسلام آباد کو جواب دہ ٹھہرانے سے کترا رہی ہیں۔

’’ ایک بار پھر کریمہ بلوچ کو یاد کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ حالات اب بھی نہایت سنگین ہیں، اور دو حالیہ پیش رفتیں طویل عرصے سے مصائب جھیلنے والی بلوچ قوم کے لیے مزید تشویشناک ہیں۔ ایران اور پاکستان کے درمیان محض الزامات نہیں بلکہ ڈرون حملوں اور میزائل حملوں کے تبادلے کے نتیجے میں بلوچ آبادی براہِ راست نشانے پر آ چکی ہے۔ آئندہ ماہ 16 سے 18 جنوری 2024 کے درمیان ہونے والے ان حملوں کی دوسری برسی ہوگی۔ دونوں اسلامی جمہوریتیں بلوچوں کے ساتھ بطور ایک نسلی و لسانی اقلیت امتیازی سلوک کرتی ہیں۔‘‘

انھوں نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلایا کہ ایران اور پاکستان دونوں ممالک میں بلوچوں کے ساتھ حکام کا رویے میں امتیاز ہے ، انھوں نے کہا ایران میں یہ امتیاز اس کے سب سے بڑے، کم ترقی یافتہ اور واحد سنی اکثریتی صوبے میں بسنے والے سنی مسلمانوں کے خلاف روا رکھا جاتا ہے۔ تہران کا یہ مؤقف کہ وہ دیوبندی تکفیری عناصر سے نمٹ رہا ہے، ناقابلِ اعتبار ہے—ایرانی مطالعات کے ماہرین میں سے شاذ و نادر ہی کوئی اس دلیل کو قبول کرتا ہے۔

’’ پاکستان کی اکثریتی سنی حنفی پنجابی اشرافیہ، فرقہ وارانہ مماثلت کے باوجود، بلوچوں کے لیے شدید نفرت رکھتی ہے اور ’’ اٹھاؤ اور پھینکو ‘‘ کی پالیسی اپنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی—جس کے تحت نہ صرف انسانی حقوق کے کارکن بلکہ غیر سیاسی، بے گناہ بلوچ شہری، خواتین اور بچے بھی مارے جاتے ہیں۔ دونوں ریاستیں ایک دوسرے پر علیحدگی پسندوں کی میزبانی کا الزام لگاتی ہیں، مگر ہمیں کبھی نہیں بتایا جاتا کہ یہ مبینہ علیحدگی پسند کون ہیں، اور ان کے سرپرستی کے نیٹ ورک کہاں سے آتے ہیں۔‘‘

اس موقع پر انھوں نے پاکستانی معاشرے کی بے حسی کا بھی ذکر کیا ، بالخصوص 7 اکتوبر کے قتلِ عام کے تناظر میں—کسی قسم کے عوامی غم و غصے کا نہ ہونا، پاکستانی معاشرے کی انتخابی حساسیت کو بے نقاب کرتا ہے؛ نہ صرف بلوچوں کے حوالے سے بلکہ ایغور مسلمانوں کے معاملے میں بھی، جنھیں گویا خبر کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا۔

’’ کریمہ بلوچ کی پانچویں برسی کے اسی سال میں، ڈیلی ٹیلی گراف (لندن، 6 ستمبر 2025) کے مطابق پاکستان نے دنیا میں افیون کے سب سے بڑے ذریعہ کے طور پر افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ سوال شاذ ہی اٹھایا جاتا ہے کہ افیون کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والے کروڑوں ڈالر انسانی اسمگلنگ یا دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت میں کیسے استعمال ہو سکتے ہیں۔ یوں بلوچستان ڈیپ اسٹیٹ کے لیے خفیہ، منافع بخش سرگرمیوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔‘‘

انھوں نے اپنے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کسی نے یہ سوچا ہے کہ ٹورنٹو میں قائم کینیڈین کمپنی بیریک گولڈ (Barrick Gold) کی لابنگ نے کریمہ بلوچ کے قتل کی سنجیدہ تحقیقات کو دبانے میں کردار ادا کیا ہو؟ یہ ماننا مشکل ہے کہ اسلام آباد نے اس کینیڈین کان کنی کمپنی پر دباؤ نہ ڈالا ہو کہ اس معاملے کو قتل قرار دے کر آگے نہ بڑھایا جائے۔ شواہد کی عدم موجودگی، عدمِ وقوع کا ثبوت نہیں ہوتی۔

انھوں نے بیرک گولڈ کے عالمی سطح پر استحصالی کردار کو بے نقاب کرتے ہوئے مزید کہا 2019 میں چلی کی ماحولیاتی عدالت نے بیریک گولڈ کے پاسکوا لاما (Pascua Lama) منصوبے کو—کم از کم چلی کی سرحد کے اندر—مستقل طور پر بند کرنے کا حکم دیا۔ یہ صورتحال بلوچستان کے ریکوڈک سے مشابہ ہے: دور افتادہ، وسائل سے مالا مال، اور ماحولیاتی طور پر نہایت نازک۔ بیریک گولڈ پاسکوا لاما کے کان کنی حقوق کی مالک ہے، جس کا 75 فیصد حصہ چلی میں واقع ہے۔ کمپنی کا منصوبہ 17 برسوں میں سالانہ 6 لاکھ 15 ہزار اونس سونا، 3 کروڑ اونس چاندی اور 5 ہزار ٹن تانبا نکالنے کا تھا۔یہ ذخائر تین اینڈیز گلیشیئرز کے نیچے واقع تھے، جو ہوآسکو دریا کو پانی فراہم کرتے ہیں—اور یہ دریا شمالی چلی کے خشک اتاکاما خطے کی زندگی ہے۔ یہ مماثلت بلوچستان کے خشک و بنجر حالات سے حیران کن طور پر ملتی جلتی ہے۔ یہ وادی، جسے ’’ گارڈن آف اتاکاما ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، تقریباً 70 ہزار افراد کا گھر ہے، جن میں مقامی قبائل بھی شامل ہیں۔

’’ کان کنی کے لیے یاگیتا (Yaguita) قبائل کی زمینیں ضبط کی گئیں اور لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔ 2010 میں ان قبائل نے واشنگٹن ڈی سی میں انٹر امریکن کمیشن آن ہیومن رائٹس سے رجوع کیا، یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ کان کنی کی اجازت دے کر چلی کی حکومت نے ان کی آبائی زمینیں چھین لی ہیں۔ بیریک گولڈ نے تو یہاں تک تجویز دی کہ گلیشیئرز کی برف ہٹا دی جائے—جس سے ایک عظیم ماحولیاتی تباہی جنم لے سکتی تھی۔‘‘

انھوں نے بتایا حالیہ طور پر فنانشل ٹائمز ویک اینڈ (25–26 اکتوبر 2025) نے رپورٹ کیا کہ مغربی افریقہ میں مالی کی حکومت نے بیریک گولڈ کی مرضی کے خلاف ایک سونے کی کان دوبارہ کھول دی۔ کمپنی نے جنوری 2025 میں یہ کان اس وقت بند کر دی تھی جب مالی حکومت—جو اس منصوبے میں 20 فیصد کی شراکت دار ہے—نے گونکوٹو کان سے کچھ سونا ایک تحویل بینک منتقل کر دیا۔ بیریک گولڈ نے عالمی بینک کے ICSID میں ثالثی کا مقدمہ دائر کیا۔

’’ مالی، جہاں اگست 2020 کی بغاوت کے بعد فوجی قیادت برسرِ اقتدار آئی، نے 2023 میں قانون بنا کر حکومتی حصہ داری 20 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر دی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے حکمرانوں کے برعکس، مالی کی قیادت کم از کم یہ ہمت رکھتی ہے کہ وہ قومی مفاد کے نام پر کثیر القومی کمپنیوں کا سامنا کرے۔‘‘

اپنی تقریر کے اختتام میں انھوں نے پاکستان کو دی جانے والی مالی معاونت پر تنقید کرتے ہوئے کہا خاموشی نہ صرف آؤٹ سورس کی جا سکتی ہے بلکہ خریدی بھی جا سکتی ہے۔ اور کتنے میں؟ بالکل 700 ملین ڈالر میں—جو عالمی بینک اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے ریکوڈک کی ترقی کے لیے نام نہاد رعایتی قرض کے طور پر فراہم کیے ہیں۔

Share This Article