بی این ایم کے زیرِ اہتمام 20 دسمبر کو لندن میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی کارکن نورِ مریم کنور کہا کہ ہم پدرشاہی نظاموں میں رہتے ہیں، اور بلوچ معاشرہ بھی اس سے مختلف نہیں جس کی بڑی وجہ نوآبادیاتی ورثہ ہے۔ اس کے باوجود، کریمہ نے اسی دور میں تربت سے آواران تک سفر کیا، ہر جگہ جا کر خواتین اور برادریوں کو منظم ہونے پر قائل کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے لوگوں کو پاکستانی ریاست کی جانب سے مسلط کردہ جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی ترغیب بھی دی۔
نورِ مریم کنورنے سیمینار میں اپنی گفتگو کا آغاز شہید کمبر مبارک کے ایک شعر” مجھ میں اک خلا ہے، اک سنّاٹا،اور یہ میرے دل کی ویرانی کی بازگشت ہے”سے کرتے ہوئے کہا کہ “اسی لیے میں نے یہ نظم پڑھنے کا انتخاب کیاکیونکہ میرا خیال ہے کہ یہ ہم میں سے اکثر کے دل کی آواز ہے۔ اس نظم میں وہ تنقیدی اظہار کے ذریعے خالی پن، اداسی، تنہائی اور ابہام کو پیش کرتا ہے۔ ایک نوجوان بلوچ مرد کے طور پر، اس کی شاعری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نوآبادیاتی طرزِ عمل اور قبضے نے بلوچ مردوں کے ذہنوں پر کس طرح اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اغوا یا قتل کے مستقل خوف، اپنے ہی وطن میں روزانہ جھیلنے والی تذلیل و تحقیر، اور اُن ممالک میں عدم تحفظ اور مایوسی جہاں بلوچ ساتھی—خصوصاً نوجوان بلوچ—پناہ کی تلاش میں جاتے ہیں، یہ سب نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور نظم میں وہ اپنے ذاتی احساسات بھی بیان کرتا ہے۔ میں نے اس نظم سے آغاز اس لیے کیا تاکہ ہمیں یاد دلایا جا سکے کہ ہر طرح کی اذیت اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔ بلوچ قوم، جو اپنے ہی وطن میں وجودی خطرے کا سامنا کر رہی ہے، پاکستانی ریاست کے جبر کے خلاف مزاحمت کی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی درندگی کی متعدد صورتوں میں سے ایک اجتماعی سزا ہے، جس کا سامنا بلوچ قوم کو جبر کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ مثال ماہ زیب شفیق کی ہے، ایک کمسن لڑکی جس کے والد کو محض اس لیے ریاست نے اغوا کر لیا کہ اس نے اشرافیہ پسندی اور پاکستان کی عسکری جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔
نور مریم نے کہا کہ اسی کے ساتھ ہم اسی بلوچ معاشرے اور قوم کے اندر غیر معمولی مزاحمت بھی دیکھتے ہیں۔ ریاستی جبر اور شدید مشکلات کے باوجود، بلوچ قوم نے نہ صرف برداشت کیا بلکہ اپنے اوپر مسلط کیے گئے ظلم کے خلاف مسلسل مزاحمت بھی جاری رکھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک بلوچ خواتین کی ریڈ مارچ اپنی روح میں منفرد ہے۔ اس نے تاریخ رقم کی اور عالمی سطح پر سرخیاں بنیں، دنیا کی سب سے زیادہ نظرانداز کی جانے والی تحریکوں میں سے ایک بلوچستان کی طرف عالمی توجہ مبذول کرائی۔ تجزیہ کار، محققین اور دیگر لوگ اس کی اپنی اپنی تعبیرات پیش کر سکتے ہیں، اور جنوبی ایشیا کی ایک کم معروف وجہ سے ابھرنے والی اس طاقتور خواتین کی سرخ تحریک کا مطالعہ کرنے کی کوششیں پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اس مارچ کو کریمہ کی جدوجہد کا تسلسل سمجھتی ہوں۔اس کی آگے بڑھتی ہوئی راہ، اور ایک معنی میں پاکستانی ریاست کے خلاف اس کی مزاحمت، جس نے اسے اپنے وطن سے جلاوطنی پر مجبور کیا۔ جو لوگ کریمہ کو جانتے تھے وہ جانتے ہیں کہ وہ پہلی خاتون تھیں جو گھر گھر جا کر لوگوں—خصوصاً خواتین کو سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ کرتی تھیں۔ وہ اس وقت دروازے کھٹکھٹا رہی تھیں جب بلوچ تحریک شدید ریاستی جبر کا سامنا کر رہی تھی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ دنیا کے تمام معاشرے پدرشاہی ہیں۔ ہم پدرشاہی نظاموں میں رہتے ہیں، اور بلوچ معاشرہ بھی اس سے مختلف نہیں جس کی بڑی وجہ نوآبادیاتی ورثہ ہے۔ اس کے باوجود، کریمہ نے اسی دور میں تربت سے آواران تک سفر کیا، ہر جگہ جا کر خواتین اور برادریوں کو منظم ہونے پر قائل کیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے لوگوں کو پاکستانی ریاست کی جانب سے مسلط کردہ جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی ترغیب بھی دی۔
انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں، میں کچھ ذاتی یادیں بھی شیئر کرنا چاہتی ہوں،وہ لمحات جنھیں کراچی میں کریمہ کے ساتھ گزارنا میرے لیے اعزاز اور سعادت کی بات ہےاور یہ کہ ان لمحات نے میری سیاست اور شعور کو کس طرح متاثر کیا۔ کریمہ سے ملنے سے پہلے ہی میں ان سے بے حد متاثر تھی۔ وہ ایک ایسی خاتون تھیں جنھیں پاکستانی فوج ایک خطرہ سمجھتی تھی، اور جو کھلے عام اس کی سفاک ریاستی مشینری کو للکارتی تھیں۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ وہ کیسی شخصیت ہوں گی۔
نور مریم نے کہا کہ جب بالآخر 2014 میں کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی تو میری عقیدت مزید بڑھ گئی۔نہ صرف ان کی جرأت کی وجہ سے بلکہ ان کی عاجزی کے باعث بھی۔ اپنے عمل سے انھوں نے مجھے یہ سکھایا کہ ایک حقیقی سیاسی رہنما عوام کا فرد ہوتا ہے۔وہ جو عوام میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ رہنما کون ہے۔ کریمہ ایسی ہی رہنما تھیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے اس وقت ملاقات کی جب وہ ایک طاقتور طلبہ تنظیم کی پہلی خاتون چیئرپرسن بن چکی تھیں، مگر ان کا عہدہ ان کی عاجزی کو مزید مضبوط ہی کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی ملاقات کراچی کے ایک کھلے آسمان تلے ریستوران میں ہوئی، ایسے وقت میں جب کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ شہر میں موجود ہیں۔ وہ زیرِ زمین تھیں، جیسے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی پوری قیادت، جبکہ دیگر کو اغوا یا قتل کیا جا چکا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اُس خاتون سے مل رہی ہوں جسے پاکستانی فوج سرگرمی سے تلاش کر رہی تھی، اور وہ ایک عوامی جگہ پر کھلے عام بیٹھی ہیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے وہیں ملاقات کرنے کا انتخاب کیوں کیا، تو وہ مسکرائیں،ایک بڑی، روشن مسکراہٹ اور کہا کہ فوج کبھی یہ تصور ہی نہیں کرے گی کہ اُن سے ایسی عوامی جگہ پر ملاقات ہو سکتی ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ اس پہلی ملاقات میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی روشن مسکراہٹ، ہمدردی، نسوانی وقار، اور چمکتی ہوئی آنکھیں تھیں۔ جو لوگ کریمہ کو جانتے تھے وہ اس کی تصدیق کریں گےاور جو نہیں جانتے تھے وہ بھی ان کی آنکھوں میں یہ سب دیکھ سکتے تھے۔ پاکستان میں ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کے دوران، انھیں درپیش خطرات کے باعث چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔