کراچی پریس کلب کے باہر جمعرات کے روز عورت مارچ کی سرگرمی اس وقت کشیدہ صورت اختیار کر گئی جب سندھ پولیس اور مارچ کی شرکاء کے درمیان ہاتھا پائی ہوگئی۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے مارچ کی نظم و ضبط ٹیم کو منتشر کرنے کی کوشش کی، جس کے دوران ایک بلوچ خاتون کو حراست میں لے لیا گیا۔
جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین کو موبائل میں ڈالنے کی پولیس کوشش ناکام بنا دی۔
واقعے کے بعد عورت مارچ کی ریلی منتشر ہوکر پریس کلب کے احاطے میں جمع ہوئی، جہاں عورت مارچ کی سربراہ اور معروف سماجی کارکن شیما کرمانی نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کی جانب سے پرامن شرکاء کے خلاف طاقت کا استعمال قابل مذمت ہے۔
شیما کرمانی نے کہا کہ “پولیس کی غنڈہ گردی عروج پر ہے، جن شرکاء کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ہم پرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں اور کسی قسم کی دھمکی یا تشدد سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔”
اس موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رہنما قاضی خِضر نے بھی پریس کانفرنس میں شرکت کی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ نسرینہ بلوچ اور ماہ جبین بلوچ کی جبری گمشدگی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں فی الفور بازیاب کیا جائے۔
قاضی خضر نے مزید کہا کہ احتجاج اور اختلافِ رائے جمہوری معاشروں کی بنیاد ہیں اور ان آوازوں کو دبانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پریس کانفرنس کے بعد شرکاء نے جبری گمشدگیوں اور خواتین کے خلاف تشدد کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔