بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پراپنے ایک پوسٹ میں Mining. Com میں چھپے ایرک گرووز کے آرٹیکل Balochistan and the new international chessboard of critical minerals پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا کوئی جائز اور قانونی حصہ نہیں بلکہ ایک مقبوضہ اور متنازع خطہ ہے جسے پاکستان نے 1948 میں بزور طاقت اپنے قبضے میں لیا۔ بلوچ قوم 1948 سے پاکستانی جبری قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ آزادی کی تحریک ایک مضبوط شکل اختیار کر چکی ہے۔ پاکستان کے لیے بلوچستان پر اپنا جبری قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس لیے پاکستان بڑی طاقتوں اور ان کی کمپنیوں کو بلوچستان کے معدنی اور سمندری وسائل کی لوٹ مار میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اسے بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف بڑی طاقتوں کی مدد حاصل ہو سکے۔
بلوچ آزادی کی تحریک پہلے ہی سی پیک اور دوسرے چینی منصوبوں کی مزاحمت کر رہی ہے، اور بلوچ عوام اور آزادی پسند بلوچ تنظیمیں ہر اُس ملک اور کمپنی کی لازماً مزاحمت کریں گی جو بلوچستان کے معدنی وسائل کی لوٹ مار میں قابض پاکستان کی شریکِ کار بنے گی۔
یہ موجودہ عالمی نظام کی ناکامی ہے کہ بڑی طاقتیں اور ان کی کمپنیاں محکوم اور کمزور اقوام کے وسائل لوٹنے کے لیے گدھوں کی طرح لپک رہی ہیں۔ بظاہر، جمہوریت، انسانی آزادیوں اور حقوق کے علمبردار امریکہ اور یورپ، اور نام نہاد سوشلسٹ چین سب بلوچستان کے معدنی وسائل کی لوٹ مار کے لیے بین الاقوامی قوانین اور اپنے ہی بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی بڑی طاقتوں کی ایسی ہی لالچ اور لوٹ مار کے سبب بھڑکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک بلوچستان کی آزادی اور بلوچستان کے وسائل پر بلوچ قوم کے خودمختار حق اور اختیار کو تسلیم نہیں کیا جاتا، قابض پاکستان کی شراکت میں کوئی بھی سرمایہ کاری کا منصوبہ نہ تو محفوظ ہو گا اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت ہو سکتی ہے۔