بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے تحصیل سوئی سے 1952سے دریافت کی جانے والی قدرتی گیس جسے بلوچستان اور پاکستان کی پہلی بڑی قدرتی وسائل کہا جاتا ہے کا اعدادو شمار مکمل طور پر گپت رکھنے کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ انکشاف پاکستان کے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں سامنے آیا ہے۔
سینیٹر عمر فاروق کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس ہوا جس میں قرۃ العین مری نے پیٹرولیم ڈویژن حکام سے سوال کیا کہ بتایا جائے صوبوں میں گیس تقسیم سے متعلق آئین کا آرٹیکل 158 کیا کہتا ہے؟
جس پر پیٹرولیم ڈویژن حکام نے اجلاس کو بتایا کہ آرٹیکل 158 جہاں سے گیس نکلے وہاں استعمال کو پہلا حق دیتا ہے۔
اجلاس میں سینیٹر بلال احمد نے سوال کیا کہ سوئی سے کتنی گیس نکل رہی ہے، جس پر پیٹرولیم ڈویژن سمیت کوئی ذیلی ادارہ سوئی سے نکلنے والی گیس کے اعداد و شمار نہ دے سکا۔
سینیٹر قراہ العین مری نے سوال کیا کہ ڈی جی پیٹرولیم کنسیشنز کہاں ہیں، بتائیں سوئی سے کتنی گیس آتی ہے؟
ڈی جی پیٹرولیم کنسیشنز عمران احمد بھی سوئی سے گیس پیداوار کے اعداد و شمار نہ دے سکے۔
ڈی جی پی سی عمران احمد نے کہا کہ میرے پاس ڈی جی پی سی کا اضافی چارج ہے۔
اراکین کمیٹی کے سوال پر عمران احمد نے بتایا کہ ان کو چارج سنبھالتے تین ماہ ہوگئے ہیں۔
اراکین کمیٹی نے کہا کہ ڈیٹا چھپا کر کمیٹی کا استحقاق مجروح کیا جا رہا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال پر صدر اور وزیر اعظم کو لکھیں گے۔
اجلاس کو سیکرٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ سوئی ناردرن سوئی سے یومیہ 8 کروڑ 50 لاکھ مکعب فٹ گیس لے رہی ہے۔
سیکرٹری پٹرولیم کے مطابق گرمیوں میں بلوچستان کی ضرورت 9 کروڑ مکعب فٹ یومیہ ہے، جبکہ سردیوں میں بلوچستان کی گیس کھپت 21 کروڑ مکعب فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
سیکرٹری پیٹرولیم نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ بلوچستان میں گیس کے 80 فیصد میٹرز ٹمپرڈ ہیں، گیس میٹرز کی ٹمپرنگ کا عمل بند ہونا چاہیے۔
رکن کمیٹی بلال احمد نے کہا کہ آرٹیکل 158 کے مطابق سوئی کی ساری گیس بلوچستان کو دی جائے۔
اجلاس میں ایم ڈی جی ایچ پی ایل مسعود نبی نے بتایا کہ ریکوڈک منصوبے کی فنانسنگ کے انتظامات مکمل ہونے کے قریب ہیں، ریکوڈک منصوبے سے 2028 میں پیداوار شروع ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی سمیت کئی علاقوں میں کوئلہ اور دیگر قدرتی وسائل کو پاکستانی فوج کے جرنیل مخلتف جعلی کمپنیوں کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے نکال رہے ہیں اور ان کا کوئی اعداد وشمار بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہے ۔