بلوچ وومن فورم کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ آج بروزجمعہ کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں سی ٹی ڈی تھانہ میں باقاعدہ طور پر پیش ہوئیں۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا ہے کہ ان کا نام اور ان کے ساتھ چند دیگر سماجی و سیاسی کارکنان کے نام حکومت بلوچستان کی جانب سے فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے کے بعد وہ آج سی ٹی ڈی تھانہ تربت میں پیش ہوئیں۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس اقدام کو سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور بنیادی انسانی و آئینی آزادیوں پر قدغن قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی جیسے قوانین کا سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے خلاف استعمال تشویش ناک رجحان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سرگرمیاں ہمیشہ آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر عوامی حقوق، لاپتہ افراد کے لواحقین اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی پر مبنی رہی ہیں۔ مگر اب انہی پرامن سرگرمیوں کو غیر قانونی ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے افسوسناک ہے۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے واضح کیا کہ اس سے قبل بھی ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی جسے انہوں نے عدالت میں چیلنج کیا تھا، اور اب فورتھ شیڈول کا اطلاق ان کے خلاف ایک اور غیر قانونی حربہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نہ صرف میری بلکہ کئی دیگر کارکن خواتین اور مردوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ اب ہم اپنی ہی زمین پر گھومنے پھرنے کے لیے این او سی کے محتاج بنا دیے گئے ہیں۔ یہ صورتِ حال بنیادی شہری آزادیوں کے منافی ہے۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے مزید کہا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مسلسل دھمکیوں، چھاپوں اور دبائو کا سامنا ہے، جبکہ گرفتاری کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہیں گی۔
انہوں نے مشرف دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پرویز مشرف کی آمریت ہمارے اکابرین کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکی تو آج کے یہ حربے بھی ہماری راہ نہیں روک سکتے۔ ہم سر نہیں جھکائیں گے بلکہ عدالتوں اور آئینی اداروں کے ذریعے اپنا مقدمہ لڑیں گے۔
بلوچ وومن فورم کی آرگنائزر نے اس موقع پر کہا کہ ان کی تنظیم خواتین، متاثرہ خاندانوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پرامن اور آئینی جدوجہد کر رہی ہے، اور حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے پرامن آوازوں کو دبانے کے بجائے انہیں سنے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب، بلوچستان میں انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کی جانب سے سیاسی و سماجی کارکنوں کو فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ متعدد تنظیموں نے اس اقدام کو پرامن سرگرمیوں کو روکنے اور اختلافِ رائے کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، بلوچستان کے مختلف اضلاع میں حالیہ ہفتوں کے دوران درجنوں سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو فورتھ شیڈول فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اور انہیں سی ٹی ڈی یا مقامی پولیس کے سامنے پیش ہونے کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
بلوچ وومن فورم کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ اس نوٹیفکیشن کو عدالتی اور آئینی سطح پر چیلنج کریں گے اور اس معاملے کو قومی و بین الاقوامی فورمز پر بھی اٹھایا جائے گا۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے آخر میں کہا کہ یہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں بلکہ آئین کے مطابق اپنے حقوق کے لیے ثابت قدم رہنے کا ہے۔ ہم قانون کے احترام کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اور سچ بولنے کی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔