انیس اکتوبر کو قلات کی تاریخی سرزمین پر لیویز فورس کے اہلکاروں نے ایک بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ احتجاج محض ملازمت یا مراعات کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ بلوچستان کی ایک قدیم، منفرد اور مقامی شناخت رکھنے والی فورس کے وجود کی بقا کی لڑائی تھی۔ حکومتِ بلوچستان کی جانب سے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے نوٹیفکیشن نے بلوچستان بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ قلات، خضدار، نوشکی، پنجگور اور کیچ سمیت مختلف اضلاع میں لیویز اہلکار سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ان کے نعروں میں ایک ہی بات نمایاں ہے کہ “لیویز ہماری پہچان ہے، ہماری زمین کی حفاظت ہمارا حق ہے۔”
بلوچستان کی لیویز فورس اس خطے کے تاریخی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ 1839 میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران جب برطانیہ نے بلوچستان میں اپنی عملداری قائم کی، تو انہیں ایسے نظام کی ضرورت پیش آئی جو مقامی قبائلی مزاج کے مطابق امن و امان برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ انہوں نے مقامی قبائل سے رضاکارانہ بنیادوں پر محافظ بھرتی کیے، جنہیں "Levies” کہا گیا یعنی وہ لوگ جو اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے خود کو پیش کرتے تھے۔
یہ محافظ سرداروں کی سفارش پر منتخب ہوتے، اپنے قبیلے اور علاقے کی جغرافیائی ساخت سے واقف ہوتے اور اس لیے وہ کسی بھی امن و امان کی صورتحال میں مؤثر کردار ادا کر سکتے تھے۔
1948 میں جب بلوچستان کو جبری طور پر پاکستان میں شامل کیا گیا، تو نوآبادیاتی نظام کے تسلسل کے طور پر لیویز فورس کو برقرار رکھا گیا۔ اس وقت بلوچستان میں پولیس کا کوئی منظم ڈھانچہ موجود نہیں تھا، اور یہی لیویز فورس ریاستی رٹ قائم رکھنے کا واحد ذریعہ تھی۔ ڈپٹی کمشنر کے ماتحت یہ فورس دیہی و قبائلی علاقوں میں جرائم کی روک تھام، عدالتی احکامات کی تکمیل، اور تنازعات کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی۔
1970 میں جب بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تو لیویز فورس کو محکمہ داخلہ کے تحت منظم کیا گیا۔ آج بھی بلوچستان کے 90 فیصد سے زائد دیہی علاقے لیویز نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ اس فورس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے اہلکار مقامی لوگ ہوتے ہیں، جو قبائلی روایات، زمینوں کے تنازعات اور علاقائی دشمنیوں کے مزاج سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔
2003 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان بھر میں پولیس سسٹم نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور لیویز فورس کو ختم کر دیا گیا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ جدید طرز کی پولیس سے بلوچستان میں بہتر امن و امان قائم کیا جا سکے گا، مگر یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ لیویز کی جگہ آنے والے پولیس اہلکار نہ مقامی حالات سے واقف تھے اور نہ ہی ان کی مقامی آبادی میں وہ قبولیت تھی جو لیویز کو حاصل تھی۔
اس اقدام کے خلاف بلوچستان بھر میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔ لوگوں نے اسے بلوچستان کی انتظامی خودمختاری اور شناخت پر حملہ قرار دیا۔ بالآخر 2008 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے عوامی دباؤ کے نتیجے میں لیویز فورس کو بحال کر دیا۔ یہ فیصلہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں عوامی مزاحمت کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
اب 2025 میں ایک بار پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ حکومتِ بلوچستان نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس پر فورس کے اہلکار سراپا احتجاج ہیں۔ قلات میں ہونے والی ریلی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ لیویز محض ایک فورس نہیں بلکہ بلوچستان کے لوگوں کی اجتماعی شناخت ہے۔
اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لیویز فورس 142 سال پرانی ادارہ ہے جس نے دہشت گردی، اسمگلنگ، قبائلی دشمنیوں اور قدرتی آفات میں ہمیشہ سب سے آگے رہ کر خدمات انجام دیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ پولیس کا نظام بلوچستان کے قبائلی، جغرافیائی اور سماجی ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پولیس ایک بیوروکریٹک ادارہ ہے جو حکم بالا پر عمل کرتی ہے۔ اور آئی جی پولیس کی تعیناتی اسلام آباد سے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لیویز ایک مقامی نظام ہے جو عوامی رابطے اور باہمی اعتماد پر قائم ہے۔ لیویز اہلکار اپنے علاقے کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی رسائی ہر گاؤں، ہر قبیلے اور ہر خاندان تک ہوتی ہے۔ وہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے روایتی جرگہ سسٹم اور ثالثی کا سہارا لیتے ہیں، جو مقامی سطح پر زیادہ مؤثر ہے۔
پولیس کے برعکس لیویز نظام میں جرائم کی شرح کم اور عوامی اعتماد زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں لوگ پولیس کی مداخلت کے بجائے لیویز کے فیصلے کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنا دراصل بلوچستان کے مقامی نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ اس صوبے کے سیاسی ڈھانچے میں مرکزیت کو مزید تقویت دے گا اور مقامی خودمختاری کے تصور کو زک پہنچائے گا۔ اس اقدام کے بعد بلوچستان میں وفاق مخالف جذبات کو بھی مزید ہوا مل سکتی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ حکومت آخر ایک ایسا نظام کیوں ختم کرنا چاہتی ہے جو مؤثر، مقبول اور تاریخی طور پر کامیاب ثابت ہوا ہے؟ کیا یہ اقدام واقعی اصلاحات کے نام پر کیا جا رہا ہے یا پھر یہ بلوچستان کے انتظامی اختیارات پر مرکز کی گرفت مضبوط کرنے کی ایک اور کوشش ہے؟
بلوچستان میں امن اور نظم و نسق کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ لیویز فورس کو کمزور کرنے کے بجائے اسے مضبوط کیا جائے۔ اس کے اہلکاروں کو جدید تربیت، وسائل اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ وہ نئے تقاضوں کے مطابق اپنی خدمات انجام دے سکیں۔
لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے بجائے دونوں فورسز کے درمیان تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔ شہری علاقوں میں پولیس اور دیہی و قبائلی علاقوں میں لیویز کا نظام برقرار رکھا جائے۔ یہی وہ ماڈل ہے جو بلوچستان کی جغرافیائی حقیقتوں اور سماجی ڈھانچے سے مطابقت رکھتا ہے۔
اگر ریاست کو واقعی بلوچستان میں پائیدار امن چاہئے تو اسے مرکزیت کے بجائے مقامی خودمختاری کو تسلیم کرنا ہوگا۔ لیویز فورس کو ختم کرنا نہیں بلکہ جدید بنانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یہی فورس بلوچستان کی روح ہے، اور روح کو کسی نظام میں ضم نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭