حماس نے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالی رہا کر دیے

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

غزہ پٹی میں حماس کی قید میں موجود تمام بیس زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔

ان یرغمالیوں کی پیر تیرہ اکتوبر کے روز رہائی کی اسرائیلی فوج نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اسرائیلی پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی معاہدہ طے پا جانے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ہی ’’انتشار اور بدامنی پھیلانے والی ان تمام قوتوں کو بری طرح شکست ہو گئی ہے، جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے خطے کو ایک عرصے سے بیمار کر رکھا تھا۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو آج ہی امریکہ سے اسرائیل پہنچے تھے اور جن کو اسرائیل میں چند گھنٹے قیام کے بعد آج ہی شرم الشیخ کے مقام پر ہونے والی غزہ امن سمٹ میں شرکت کے لیے مصر روانہ ہونا تھا، اسرائیلی پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا، ’’تمام تہذیبوں کے دشمن پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔‘‘

امریکی صدر نے اسرائیلی ارکان پارلیمان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ڈراؤنا خواب، جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں ہی کے لیے ’’طویل اور بہت تکلیف دہ‘‘ تھا، اب ’’بالآخر ختم ہو گیا ہے۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ’’یہ وقت اب مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کے لیے نئے جوش و جذبے کا وقت ہے۔‘‘

جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے پیر کے روز تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے قبضے میں ہلاک ہو جانے والے تمام 28 یرغمالیوں کی جسمانی باقیات بھی جلد از جلد اسرائیل کے حوالے کی جانا چاہییں۔

چانسلر میرس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں آج لکھا، ’’بالآخر، 738 دنوں بعد، یرغمالی واپس اپنے گھروں کو پہنچ رہے ہیں۔ ان میں جرمنی کے شہری بھی شامل ہیں۔ ان کی رہائی کے پیچھے دو سال تک جاری رہنے والا خوف، درد اور امید بھی ہیں۔ آج ان یرغمالیوں کے خاندان ایک بار پھر اپنے ان پیاروں کو گلے لگا سکیں گے۔‘‘

ساتھ ہی چانسلر میرس نے ایکس پر مزید لکھا، ’’وہ تمام یرغمالی بھی، جو قتل کر دیے گئے، ان کی جسمانی باقیات کو بھی لازمی طور پر ان کے گھروں کو لوٹنا چاہیے، تاکہ ان کے خاندان انہیں باوقار انداز میں ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ سکیں۔ آج کا دن ایک ابتدا ہے، ابتدا اس عمل کی جس کے ساتھ زخم بھرنا شروع ہو جائیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے راستے پر ایک نیا قدم اٹھایا جا سکے۔‘‘

Share This Article