کابل پر فضائی حملوں کے بعد کشیدہ صورتحال کے نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ہو گی،طالبان حکام

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

افغانستان کی وزراتِ دفاع کی جانب سے پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی اور کابل سمیت دو مقامات پر فضائی حملوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر افغان وزاتِ دفاع کے سرکاری اکاؤنٹ سے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ایک بار پھر پاکستان نے افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور کابل اور ڈیورنڈ لائن کے قریب پکتیکا کے علاقے میں ایک بازار پر بمباری کی ہے۔‘

اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا تاہم جمعہ کی سہ پہر پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے اس بارے میں سوالات کیے گئے توانھوں نے اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ’پاکستانی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعرات اور جمعہ کی شب پاکستان اور افغانستان میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مختلف مقامات کو فضائی اور ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔

افغان وزراتِ دفاع نے پاکستان کے مبینہ حملے کو ایک ’پُرتشدد‘ اور ’قابلِ مذمت عمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی تاریخ میں ایسے اقدام کی مثال نہیں ملتی۔ ’ہم افغانستان کی فضائی حدود کی اس خلاف ورزی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اپنی خودمختاری کا دفاع ہمارا حق ہے۔‘

طالبان کی وزراتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے بعد اگر صورتِحال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو اس کے نتائج کی ذمہ داری پاکستانی فوج پر عائد ہو گی۔

ادھر انڈیا کے دورے پر موجود افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کابل اور دیگر علاقوں میں متعدد دھماکوں (جنھیں مبینہ طور پر پاکستان کے حملے قرار دیا جا رہا ہے) پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے پاس یہ اطلاع ہے کہ کابل میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن رات بھر کی تلاش کے بعد کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی اور ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ وہ آواز کس چیز کی تھی آیا وہاں معدنیات میں کام کرنے والوں نے کوئی دھماکہ کیا یا کوئی اور بات ہے۔‘

افغانستان کے وزیر خارجہ نے کہا ’تاہم دور دراز سرحدی علاقوں میں کچھ حملے ہوئے ہیں جن کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اور اسے پاکستان حکومت کی غلطی سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل طاقت کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے۔‘

انھوں نے کہا ’ہم نے تفاہم اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ہماری جغرافیائی حیثیت ہمیں ایک اہم تجارتی راہداری بننے کا موقع دیتی ہے۔ اس ےس فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم جیسے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ویسے ہی ہم پاکستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن یہ دونوں طرف سے ہو سکتا ہے، ایک طرف سے یہ ممکن نہیں ہے۔‘

امیر خان متقی نے نے کہا ’اس لیے آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے اور افغانوں کے حوصلے کو نہیں آزمانا چاہیے۔ اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرات کرتا ہے تو اسے ایک بار انگریز، سوویت یونین (یو ایس ایس آر) امریکہ اور نیٹو سے پوچھنا چاہیے۔ وہ آپ کو سمجھائیں گے کہ افغانستان کے ساتھ ایسے کھیل کھیلنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔‘

Share This Article