بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما اور جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی دین بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدہ افراد کمیشن نے لاپتہ افراد لواحقین کو 50 لاکھ کے حوض خاموش رہنے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے کمیشن میں ایک بار پھر میرے والد کے کیس کے ساتھ کئی دیگر گمشدہ افراد کے لواحقین پیش ہوئے مگر ہمیشہ کی طرح ہم سے ایک ہی سوال پوچھا گیا کہ “آپ کے لوگوں کو کس نے اٹھایا؟” ۔
سمی بلوچ نے کہا کہ سولہ سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہمیں جواب دینے کے بجائے سوالات کیے جاتے ہیں، یہی کمیشن کی سنجیدگی کا عالم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل کی پیشی میں ہمیں ایک نیا فارم دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ گمشدہ افراد کے لواحقین فارم بھر کر پچاس لاکھ روپے وصول کریں اور خاموش ہو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی جانب سے کمپنسینش کے نام پر ہمارے گمشدہ پیاروں کی قیمت لگانے کی ایک اور کوشش ہے۔ ہم نے ماضی کی طرح اس آفر کو بھی مسترد کیا ہے، کیونکہ کوئی رقم ہمارے درد، تکالیف یا ہمارے پیاروں کی زندگیوں کا مداوا نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے آفر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے اور ہمارے جذبات کی توہین کے مترادف ہیں۔اگر ریاست واقعی گمشدہ افراد کے لواحقین کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے، تو ہمارے سوالوں کے جواب دے کہ ہمارے لوگ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن اپنی سنجیدگی کا ثبوت دے اور محض سوالات دہرانے کے بجائے حقائق پر مبنی پیشرفت دکھائے۔ہم اپنے گمشدہ عزیزوں کی بازیابی اور سچائی کے مطالبے پر قائم ہیں، کوئی رقم یا وقتی آفر ہمیں خاموش نہیں کر سکتی۔ ہمیں صرف اپنے پیاروں کے بارے میں سچ چاہیے۔