یونیورسٹیز کی ملٹرائزیشن اور بلوچی ، براہوئی و پشتون زبانوں کے شعبہ جات کے خاتمے کو روکا جائے،بساک

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت لسبیلہ یونیورسٹی آف واٹر اینڈ میرین سائنسز، اوتھل کے طلباء کو یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، جہاں سینکڑوں طلباء کو لاٹھی چارج، اسٹریٹ فائرنگ اور بدترین تشدد کے ذریعے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔

تمام تعلیمی اداروں میں بدعنوانی، انتظامیہ کی نااہلی، اقربا پروری، من مانی فیصلے، ناانصافی، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے صورتحال گھمبیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی ادارے اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں، جہاں روز ایسے مسائل جنم لے رہے ہیں جو نہ صرف علمی ماحول کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ اداروں کی ساخت، وقار اور طلباء کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں بدعنوانی، انتظامیہ کی نااہلی، اقربا پروری، من مانی فیصلے، ناانصافی، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، بنیادی سہولیات کی کمی، اساتذہ کی قلت اور انفراسٹرکچر کی خستہ حالی نے طلباء کو تعلیمی عمل سے بدظن کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کی اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حال ہی میں ہونے والے بدترین جبر کے حوالے سے آپ سے مخاطب ہیں۔ اس وقت لسبیلہ یونیورسٹی آف واٹر اینڈ میرین سائنسز، اوتھل کے طلباء کو یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، جہاں سینکڑوں طلباء کو لاٹھی چارج، اسٹریٹ فائرنگ اور بدترین تشدد کے ذریعے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ یاد رہے کہ طلباء پُرامن طور پر انتظامیہ کی علم دشمن پالیسیوں کے خلاف دھرنا دے رہے تھے جہاں سات طالب علموں کو نام نہاد ڈسپلنری کمیٹی کی جانب سے معطل کیا گیا۔ ان کا واحد “قصور” یہ تھا کہ انہوں نے بلوچی زبان کے نامور ادیب اور شاعر مبارک قاضی کی یاد میں ایک علمی پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس علم دشمن اقدام کے خلاف طلباء دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے مگر ان کی بات سننے اور جائز مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے انتظامیہ نے انہی سات طلباء میں سے ایک کو ایک سال جبکہ دو کو دو سال کے لیے رسٹیکیٹ کر دیا جو نہ صرف تعلیم دشمن عمل ہے بلکہ طلباء کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

پریس کانفرنس کرے ہوئے انہوں نے کہ یہ رویہ بلوچ طلباء کے لیے نیا نہیں، بلکہ یہ برسوں سے جاری ہے۔ کبھی یونیورسٹی کے ہاسٹلز سے طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے، تو کبھی انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے ان کی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ اس کے ٹھوس شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔ لاٹھی چارج، گرفتاریاں، رسٹیکیشن، پروفائلنگ اور ہراسگی اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے تعلیمی ادارے ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں زوال کا شکار ہیں اور ہم بطور بلوچ طلباء، ہر حال میں ان کے سامنے کھڑے رہیں گے اور مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے کچھ ساتھی پولیس کی اسٹریٹ فائرنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہوئے ہیں اور اگر ان کو کچھ بھی ہوا تو اس کی مکمل ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ اور اوتھل کی سول انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

طلبا نے مزید کہا کہ اسی طرح بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، خضدار میں طلباء اپنے جائز تعلیمی حقوق کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کی جامعہ میں بنیادی تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں جن میں اسکالرشپس، اسٹڈی ٹورز، بہتر مینٹیننس اور دیگر ضروریات شامل ہیں۔ یہ مطالبات نہایت سادہ اور جائز ہیں جو نہ صرف طلباء کے بنیادی حقوق ہیں بلکہ انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داریاں بھی۔ مگر ان کی بات سننے کے بجائے طلباء کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے، جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ ان پر بھی کریکڈاؤن کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی دیگر جامعات میں نئے شعبے قائم کیے جا رہے ہیں اور سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں مگر بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ میں کئی شعبوں کو ختم کیا جا رہا ہے جن میں بلوچی، براہوئی اور پشتو زبان کے شعبے شامل ہیں۔ یہ پاکستان کے آئین کا حصہ ہے کہ مادری زبانوں کو ترقی و ترویج دی جائے مگر بلوچستان میں اس کے برعکس ان زبانوں کے شعبوں کو بند کیا جا رہا ہے جو وہاں بسنے والی بلوچ و پشتون اقوام کے ساتھ زیادتی ہے اور جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ایک طرف موجودہ حکومت نوجوانوں کو بیرونِ ملک تعلیم کے خواب دکھاتی ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے تعلیمی اداروں سے مادری زبانوں کے شعبے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ بلوچی، براہوئی اور پشتو صرف زبانیں نہیں، بلکہ ان اقوام کی ثقافت، تاریخ اور اجتماعی یادداشت ہیں۔ ان کا خاتمہ دراصل ان اقوام کی ثقافتی بقاء پر حملہ ہے جسے ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

بساک کے رہنمائوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم نے بلوچ طلباء سمیت پورے بلوچستان کے عوام کو ان تین سنگین مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ ہم بلوچستان کے اساتذہ، دانشوروں، اور دیگر طبقاتِ فکر سمیت عام عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان سنگین مسائل پر خاموش نہ رہیں بلکہ نوجوانوں کا ساتھ دے کر مستقبل کے معماروں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ آخر میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بطور طلباء تنظیم ان جبر و زیادتیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہیں۔
ہم صرف بلوچ طلباء ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے طلباء، علم دوست تنظیموں اور ساتھیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ طلباء کے جائز مطالبات اور حقوق کے لیے میدان میں نکلیں اور ہمارا ساتھ دے کر جامعات کی ملٹرائزیشن کو روکیں۔ کیونکہ مزاحمت ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اس بوسیدہ تعلیمی نظام کو ایک سازگار تعلیمی ماحول میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

Share This Article