پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ملٹری ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکومت کو فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو اپیل کا حق دینے کے لیے قانون سازی کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے رواں سال سات مئی کو حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا اور فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے اجازت دی تھی۔
اس سے قبل 23 اکتوبر 2023 کو جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے نو مئی کیسز میں گرفتار شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
پیر کے روز جاری ہونے والے انٹرا کورٹ اپیلوں کا 68 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا ہے۔
بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا ہے۔ جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی جسٹس شاہد بلال نے اضافی نوٹ سے اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
عدالت نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کو اپیل کا حق دینے کے لیے حکومت کو 45 دن میں قانون سازی کا حکم دیا ہے،
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود تو ہے مگر عام شہریوں کے لیے مناسب اپیل کے فورم کا فقدان ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کے لیے ہائی کورٹس میں آزادانہ اپیل کے لیے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں تاہم ان میں بھی آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاسداری ہونی چاہیے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی مرتبہ حقِ اپیل پر حکومتی ہدایات کے لیے وقت لیا اور پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آزاد حقِ اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کے لیے آئینی طور پر مکمل نہیں اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قانون سازی کے ذریعے سے مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ حکومت اور پارلیمان حقِ اپیل کے لیے 45 دن میں قانون سازی کریں۔