فلسطینی صدر محمود عباس جنھیں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا نہیں دیا گیا انھوں نے ویڈیو خطاب کے دوران مستقل جنگ بندی اور اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے ’بغیر کسی تاخیر کے‘غزہ اور مغربی کنارے کی تعمیر نو کے آغاز کا بھی مطالبہ کیا۔
محمود عباس نے کہا کہ غزہ پر حکومت کرنے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا، انھوں نے گروپ کو فلسطینی اتھارٹی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ’ہم جو چاہتے ہیں وہ ہتھیاروں کے بغیر ایک متحد ریاست ہے۔‘
محمود عباس کا کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کے تین ماہ کے اندر ایک عبوری آئین کا مسودہ تیار کیا جائے گا تاکہ اقتدار کی درست منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد انتخابات بین الاقوامی مشاہدے کے تحت ہوں گے۔
انھوں نے ان 149 ممالک کی تعریف کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور جن ممالک نے نہیں کیا ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
محمود عباس نے اقوام متحدہ کی کانفرنس کے دوران منظور کیے گئے کسی بھی امن منصوبے پر عمل درآمد کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سعودی عرب اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر بھی آمادگی کا اظہار کیا۔