افغانستان میں خواتین مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

افغانستان میں طالبان حکومت نے ایک نئی پابندی کے تحت یونیورسٹیوں سے خواتین کی لکھی ہوئی کتابوں کو ہٹا دیا ہے۔

اس حکم نامے میں انسانی حقوق اور جنسی ہراسانی جیسے موضوعات کے مطالعہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔

طالبان نے 680 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جن میں خواتین کی طرف سے لکھی گئی تقریباً 140 کتابیں بھی شامل ہیں جن میں ’سیفٹی ان دی کیمیکل لیبارٹری‘ جیسی کتابیں بھی شامل ہیں۔

طالبان کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ان کی پالیسیوں اور شریعت کے خلاف ہیں۔

یونیورسٹیوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ مزید 18 مضامین نہیں پڑھائیں گے، جن کے بارے میں طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ ’شرعی اصولوں اور طالبان کی پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘

یہ حکمنامہ طالبان کی جانب سے گزشتہ چار سالوں میں عائد کردہ پابندیوں کے سلسلے میں ایک اور قدم ہے۔

اس ہفتے طالبان کے سپریم لیڈر کے حکم پر کم از کم 10 صوبوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی تھی حکام کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنا تھا۔

زکیا ادیلی، جو طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے نائب وزیر انصاف تھیں اور جن کی کتابیں اُس فہرست میں شامل ہیں کہ جن پر پابندی لگائی گئی ہے، نے اس اقدام پر حیرت کا اظہار نہیں کیا اُن کے مطابق طالبان کی جانب سے سامنے آنے والا یہ حالیہ اقدام کوئی انوکھی بات تو نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ چار سال میں طالبان نے جو کیا اس کو دیکھتے ہوئے نصاب میں تبدیلیوں کی توقع کرنا غیر متوقع نہیں تھا۔‘

’طالبان کے خواتین مخالف رویے اور پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے، یہ فطری ہے کہ جب خواتین کو خود تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تو ان کے خیالات، نظریات اور تحریریں بھی دبائی جائیں گی۔‘

افغانستان کی تمام یونیورسٹیوں کو بھیجی گئی 50 صفحات پر مشتمل فہرست میں 679 عنوانات شامل ہیں، جن میں سے 310 ایرانی مصنفین کی تحریر یا ایران سے شائع کی گئی ہیں۔

لیکن ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی، نے کہا کہ ’ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ ان کتابوں کو نصاب میں سے نکالنے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر نہیں کیا جا سکے گا بلکہ یہ ناممکن ہوگا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایرانی مصنفین اور مترجم کی کتابیں افغانستان کی یونیورسٹیوں اور عالمی تعلیمی کمیونٹی کے درمیان بنیادی رابطہ فراہم کرتی ہیں۔ ان پر پابندی لگنا اور نصاب سے ہٹایا جانا اعلیٰ تعلیم میں ایک بڑا خلا پیدا کرتا ہے۔‘

Share This Article