روسی صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا رہنما کم جونگ کے درمیان ملاقات میں صدر پوتن نے یوکرین میں روس کے شانہ بشانہ لڑنے والے اپنے فوجیوں کی بہادری پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کا شکریہ ادا کیا۔
شمالی کوریا کے رہنما نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ وہ روس کی ’ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
دونوں رہنماؤں کی آج ملاقات ہوئی جب چین نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنی سب سے بڑی فوجی پریڈ کا انعقاد کیا۔
صدر پوتن نے کہا کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان تعلقات دوستانہ ہیں اور پیانگ یانگ کی فوج نے کرسک کے علاقے کو آزاد کرانے میں مدد کی ہے۔
پوتن نے بدھ کو بات چیت کے دوران کم جونگ سے کہا کہ ’آپ کے فوجیوں نے بہادری اور بہادری سے مقابلہ کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں یہ واشگاف انداز میں کہتا ہوں کہ ہم آپ کی مسلح افواج اور آپ کے فوجیوں کے خاندانوں کی قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
واضح رہے کہ روس نے 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
کم جونگ اُن نے یوکرین کی جنگ کو ’مشترکہ جدوجہد‘ قرار دیا اور تعریف کرنے پر روسی صدر کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ’تمام شعبوں میں ترقی کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر روس کی مدد کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو ہم اسے برادرانہ فرض کے طور پر ضرور کریں گے۔‘
جنوبی کوریا کے مطابق شمالی کوریا نے میزائل اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے لیس تقریباً 15 ہزار فوجی روس کی مدد کے لیے روانہ کیے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ روس نے اس امداد کے بدلے میں شمالی کوریا کو خوراک، رقم اور تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔
شمالی کوریا کے فوجیوں نے مغربی کرسک علاقے کے کچھ حصوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی روسی کوشش میں حصہ لیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
یوکرین نے پچھلے سال ایک حملے میں اس خطے کے ایک چھوٹے سے حصے پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
مغربی حکام نے اس سال جنوری میں کہا تھا کہ صرف تین ماہ میں شمالی کوریا کے کم از کم ایک ہزار فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
دو ماہ بعد جنوبی کوریا کے کچھ حکام نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے کل 15,000 فوجیوں میں سے تقریباً 4,700 زخمی ہوئے تھے، جن میں سے 600 ہلاک ہو چکے تھے۔
شمالی کوریا کے فوجی، جن میں سے کوئی بھی جنگی تجربہ نہیں رکھتا، خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پہلے ہفتے روس کی تربیت اور پھر دیگر امور میں گزارے۔
گذشتہ دو سالوں میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان یہ تیسری ملاقات ہے اور یہ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ماسکو اور پیانگ یانگ اپنے تعاون کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
ولادیمیر پوتن اور کم جونگ نے گذشتہ موسم گرما میں جون میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر کوئی دوسرا ملک ان پر حملہ کرتا ہے تو وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
اس وقت کم جونگ نے اس معاہدے کو ’سب سے مضبوط‘ معاہدہ قرار دیا۔ چند ہفتے قبل انھوں نے یوکرین کی جنگ میں روس کی ’غیر مشروط حمایت‘ کا اعلان بھی کیا تھا۔
یوکرین اور مغرب کی جانب سے شمالی کوریا کے فوجیوں کی فرنٹ لائنز پر بڑے پیمانے پر منتقلی کی اطلاع کے مہینوں بعد پیانگ یانگ نے پہلی بار عوامی طور پر اپریل میں روس میں فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا۔
ایک روسی سکیورٹی اہلکار نے جون میں یہ بھی کہا تھا کہ شمالی کوریا نے فوجیوں کے علاوہ جنگ زدہ کرسک علاقے کی تعمیر نو میں مدد کے لیے ہزاروں کارکنان روس بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔