غزہ میں اسرائیلی پروپیگنڈا کو آگے بڑھانے پر صحافی نے ریوٹرز سے علیحدگی اختیار کرلی۔
کینیڈا کی فوٹو جرنلسٹ ولیری زنک، جو گزشتہ آٹھ برس سے ریوٹرز نیوز ایجنسی کے لیے بطور اسٹرنگر کام کر رہی تھیں، نے غزہ میں صحافیوں کے قتل عام پر ریوٹرز کے کردار اور اسرائیلی بیانیے کو تقویت دینے کے الزام میں ادارے سے تعلق ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ولیری زنک کی تصاویر نارتھ امریکا، یورپ اور ایشیا کے بڑے میڈیا اداروں جیسے نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ریوٹرز کے ساتھ مزید تعلق رکھنا ممکن نہیں رہا کیونکہ ادارہ "245 صحافیوں کے منظم قتل کو جواز فراہم کرنے اور اسے ممکن بنانے میں شریک” ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے 10 اگست کو غزہ سٹی میں الجزیرہ کے صحافی انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا، اور ریوٹرز نے اسرائیل کے اس بے بنیاد دعوے کو شائع کیا کہ انس الشریف "حماس کے رکن تھے”۔ زنک کے مطابق یہ محض ایک مثال ہے کہ کیسے عالمی میڈیا اسرائیل کے پروپیگنڈے کو دہراتا اور اسے جواز بخشتا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ریوٹرز کا یہ رویہ خود اس کے اپنے صحافیوں کو بھی تحفظ نہ دے سکا۔ حال ہی میں ایک اور اسرائیلی حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے جن میں ریوٹرز کے کیمرہ مین حسام المسری بھی شامل تھے۔ یہ حملہ "ڈبل ٹیپ اسٹرائیک” کی مثال تھا، جس میں پہلے کسی اسپتال یا اسکول پر بمباری کی جاتی ہے اور پھر امدادی کارکنوں، ڈاکٹروں اور صحافیوں کے پہنچنے کے بعد دوبارہ حملہ کیا جاتا ہے۔
ولیری زنک نے مغربی میڈیا کو براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ "نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اے پی اور ریوٹرز سمیت ہر بڑا ادارہ اسرائیلی پروپیگنڈے کو دہراتا رہا ہے، جنگی جرائم کو چھپاتا رہا ہے اور مقتولین کو غیر انسانی بنا کر پیش کرتا رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ انس الشریف کا صحافتی کام ریوٹرز کے لیے پلٹزر پرائز جیت چکا تھا، مگر اس کے باوجود ریوٹرز نے ان کا دفاع نہیں کیا جب اسرائیلی فوج نے انہیں "ہٹ لسٹ” میں شامل کیا اور ان کی زندگی کو خطرہ بنایا۔ "یہاں تک کہ جب وہ قتل کیے گئے، ریوٹرز نے ان کی موت پر سچائی بیان کرنے کے بجائے اسرائیلی بیانیہ دہرایا۔”
ولیری زنک نے کہا "میں نے آٹھ سال ریوٹرز کے ساتھ گزارے مگر آج اس پریس پاس کو پہننے کا مطلب میرے لیے صرف شرمندگی اور دکھ ہے۔ میں نہیں جانتی کہ غزہ کے ان بے مثال بہادر صحافیوں کی قربانیوں کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے، لیکن اب سے میری ہر کاوش اسی سوچ کے ساتھ ہوگی۔”