اسرائیل کی بری اور فضائی افواج نے غزہ شہر کے بعض حصوں پر شدید بمباری کی ہے۔
غزہ شہر کے رہائشیوں نے شہر کے شمالی اور مشرقی حصوں میں مسلسل ہونے والے دھماکوں کی اطلاعات دی ہیں۔
یہ حملے اسرائیل کے اس خطے کے سب سے بڑے شہری علاقے پر قبضے کے منصوبے کے سلسلے کی کڑی ہیں جس نے وہاں رہنے والے تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
اسرائیلی افواج اس دوران مزید شمال میں جبالیہ کے پناہ گزین کیمپوں کی عمارتوں کو دھماکوں سے تباہ کر رہی ہیں۔
دوسری جانب حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی افواج کے حملوں میں 64 افراد ہلاک اور تقریباً تین سو زخمی ہوئے ہیں۔
وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے حماس کو شکست دینے کے مہم کے آغاز کے بعد سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 62,686 ہو گئی ہے جب کہ ایک لاکھ 58 ہزار کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے غزہ میں حملوں کا آغاز اُس وقت شروع کیا جب سات اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا گیا تھا جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حماس کو ختم کرنے کے عزم ظاہر کیا ہے اور جنگ کو بڑھاوا دینے پر ہونے والی بین الاقوامی تنقید کو نظر انداز کیا ہے۔
اس کارروائی میں اسرائیل نے تقریباً 60,000 ریزرو فوجیوں کو استعمال کیا ہے۔ اگرچہ یہ حملے پوری شدت سے ابھی شروع نہیں ہوئے لیکن اسرائیلی فوج غزہ شہر پر مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اتوار کی صبح تک فضائی حملوں میں زیتون اور شجاعیہ کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ صبرہ اور اس کے اطراف میں ٹینکوں سے گولہ باری کی گئی۔
اسرائیلی فوج کے دعوے کے مطابق مطابق گذشتہ چند دنوں میں فوجی دوبارہ جبالیہ کے علاقے میں واپس آئے ہیں جس سے لڑائی کو مزید علاقوں تک وسعت دینے اور حماس کے ’دہشت گردوں‘ کو واپس آ کر ان علاقوں میں کارروائی سے روکنے سے مدد ملی ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارۂ صحت نے اتوار کو اعلان کیا ہے کہ اس کے ایک اہلکار کو اسرائیلی فوج نے رہا کر دیا ہے جسے 21 جولائی سے غزہ میں حراست میں رکھا گیا تھا۔ ادارے نے اہلکار کی شناخت یا گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
جنگ کے باعث نیتن یاہو کو اسرائیل کے اندر بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
خاص طور پر یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کی جانب سے ان پر دباؤ ہے، جو چاہتے ہیں کہ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں تاکہ ان کے عزیز و اقارب کو گھر واپس لایا جا سکے۔
غزہ میں اب بھی موجود 50 یرغمالیوں میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے گزشتہ ماہ حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر بالواسطہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پورے غزہ پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا۔
ثالثی کرنے والے قطر اور مصر اس حملے کو روکنے کے لیے معاہدہ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھوں نے 60 دن کی جنگ بندی اور تقریباً نصف یرغمالیوں کی رہائی کی نئی تجویز پیش کی ہے۔
اس تجویز پر حماس نے رضامندی کا اظہار کیا ہے تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب جزوی معاہدہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ایک جامع معاہدے کے تحت تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔
اسرائیل کے وزیرِ دفاع نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے ہتھیار ڈالنے اور تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر اتفاق نہ کیا تو غزہ شہر کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا۔
غزہ کی بیشتر آبادی کئی بار بے گھر ہو چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ شہر پر اسرائیلی حملہ ایک ’ہولناک انسانی المیہ‘ ثابت ہوگا۔
محتاط اندازوں کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 90 فیصد سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچ چکا ہے یا وہ تباہ ہو چکے ہیں جبکہ صحت، پانی، صفائی اور حفظانِ صحت کے نظام مکمل طور پر بیٹھ چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے 18 اس وقت جزوی طور پر فعال ہیں ان میں 11 غزہ شہر اور اس کے اطراف میں ہیں جبکہ ایک شمالی غزہ کے علیحدہ انتظامی ضلع میں ہے۔