فلسطینی مسلح گروپ کے ایک ذرائع نے میڈیا کو بتایا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیل کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے علاقائی ثالثوں کی تازہ ترین تجویز سے اتفاق کیا ہے۔
مصر اور قطر کی جانب سے یہ تجویز امریکی سفیر سٹیو وٹکوف کی جانب سے جون میں پیش کیے گئے فریم ورک پر مبنی ہے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں حماس 50 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تقریباً نصف کو دو گروہوں میں آزاد کرائے گی جن میں سے 20 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مستقل جنگ بندی پر بھی بات چیت ہوگی۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا، جیسا کہ وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دفتر سے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ (اسرائیل) صرف اسی صورت میں معاہدے کو قبول کرے گا جب ’تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے گا۔‘
حماس کی جانب سے ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد جاری کی گئی ایک ویڈیو میں نیتن یاہو نے براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ ’ان سے آپ کو ایک تاثر مل سکتا ہے کہ حماس شدید دباؤ میں ہے۔‘
دریں اثنا اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے کہا ہے کہ یہ 22 ماہ سے جاری جنگ میں ایک اہم موڑ ہے اور اس میں غزہ شہر میں حماس کے خلاف حملوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
غزہ شہر میں عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے فضائی اور توپ خانے کے حملوں کی مدد سے جنوبی سبرا کے علاقے میں اچانک پیش قدمی کی اور سکولوں اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک کلینک کا محاصرہ کر لیا جس میں سینکڑوں بے گھر افراد کو پناہ دی جا رہی ہے۔
توقع ہے کہ رواں ہفتے کے اواخر میں اسرائیلی کابینہ غزہ شہر پر قبضہ کرنے کے فوج کے منصوبے کی منظوری دے گی، جہاں اسرائیلی حملوں میں شدت نے پہلے ہی ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔