امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا لیکن روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ یوکرین مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ زمینی تبادلوں کا فیصلہ یوکرین پر چھوڑ دیا ہے۔
الاسکا میں تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔‘
روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کو ختم کرنے میں ’خلوص دل سے دلچسپی‘ رکھتے ہیں، تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
دونوں صدور نے پریس کے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
مذاکرات کے بعد ایک انٹرویو میں امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر زور دیا کہ وہ کوئی ’معاہدہ کرلیں‘۔
دونوں صدور نے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی لیکن صحافیوں سے سوالات کا جواب نہیں دیے۔
ملاقات سے قبل دونوں صدور کے مابین ایئرپورٹ پر ہونے والی ملاقات میں کافی گرمجوشی دکھائی دی اور دونوں نے دو بار مصافحہ بھی کیا اور پھر دونوں ٹرمپ کی لیمو کار میں سوار ہو کر ملاقات کی جگہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
دوسری جانب کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات کو ’انتہائی مثبت‘ قرار دیا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نووستی کی رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دونوں رہنماؤں نے بات چیت کے بعد صحافیوں سے سوالات نہ لینے کا انتخاب کیوں کیا۔ پیسکوف کا کہنا ہے کہ دونوں نے ’مکمل بیانات دیے‘ اس لیے سوالات لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
بی بی سی کے شمالی امریکہ کے نمائندے کے مطابق ’وہ شخص جو خود کو ’امن ساز‘ اور ’ڈیل میکر‘ کے طور پر پیش کرنا پسند کرتا ہے بظاہر لگتا ہے کہ وہ الاسکا کو ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں کر پائیں ہیں۔‘
بی بی سی مانیٹرنگ میں روسی زبان کے ایڈیٹر وٹالی شیوچنکو لکھتے ہیں کہ سالوں کی کوششوں کے باوجود روسی صدر کے ذہن کو نہیں بدلا جا سکا۔
انھوں نے لکھا کہ کیئو میں چین کا سانس لیا گیا ہوگا کہ کوئی ’معاہدہ‘ نہیں ہوا اور یوکرین کے کسی علاقے کو نقصان نہیں پہنچا۔
واضح رہے کہ ولادیمیر زیلنسکی کو سربراہی اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن روسی صدر سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب یہ بات صدر زیلنسکی پر منحصر ہے کہ وہ یورپین ممالک کی شمولیت کے ساتھ کس طرح سے معاہدہ کرتے ہیں۔
اس سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ وہ بات چیت کے بعد یوکرین کے صدر اور یورپی رہنماؤں کو فون کریں گے۔
انھوں نے اپنی بات چیت کو دس میں سے دس نمبر دیے اور کہا کہ ’ہماری ملاقات زبردست رہی۔‘
انھوں نے کہا اب روس اور یوکرین کے درمیان بات چیت ہو گی جس میں پوتن اور زیلینسکی دونوں ہوں گے۔
ملاقات کے بعد فاکس نیوز پر نشر بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ بظاہر معاہدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس میں جنگی قیدیوں کا تبادلہ شامل ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ انھیں 50/50 کی امید ہے کیونکہ بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں۔’ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا: ’میرے خیال میں صدر پوتن اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے پاس ہزاروں لوگوں کی فہرست ہے جو انھوں نے مجھے آج پیش کی، (ان میں) ہزاروں قیدی ہیں، جو رہا ہو جائیں گے۔‘
میزبان ہینٹی نے پوچھا کہ کیا یہ وہ معاہدہ تھا جس پر آج اتفاق ہوا تو ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ابھی تک زیر التواء ہے۔
تاہم انھوں نے کہا کہ ’انھیں اسے قبول کرنا ہوگا۔‘
انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں یہ بُک یعنی قیدیوں کی فہرست والی کتاب کس نے ’پیش کی‘، اور آیا قیدی روسی تھے یا یوکرینی؟
خیال رہے کہ فاکس نیوز کے ساتھ ان کا انٹرویو پہلے سے ریکارڈ کیا ہوا تھا۔ اس میں ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں یوکرین میں جنگ کیسے ختم ہو سکتی ہے، کیا زمین کے تبادلے کے ساتھ؟
جس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ ان نکات پرپوتن کے ساتھ ملاقات کے دوران بات چیت ہوئی اور ان پر ‘بہت حد تک’ اتفاق کیا گیا۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ‘بہت پُرجوش ملاقات’ رہی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں ‘ہم ایک معاہدے کے کافی قریب پہنچ گئے تھے۔’ لیکن، ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو کسی بھی معاہدے پر رضامند ہونا پڑے گا۔ ‘شاید وہ نہیں بھی کہہ سکتے ہیں۔’
وہ یوکرین کے صدر زیلنسکی پر معاہدہ کرنے کے لیے زور دیتے نظر آتے ہیں۔