بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسکالر اور بیوٹمز یونیورسٹی کوئٹہ کے اسسٹنٹ پروفیسر عثمان قاضی بلوچ اور ان کے چھوٹے بھائی ایم فل اکنامکس کےطالبعلم جبران قاضی بلوچ کو12 اگست کی رات تقریبا 3 بجے ،ان کے گھرسے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے چھاپہ مار کر جبری طور پر لاپتہ کردیا۔ ڈاکٹر عثمان قاضی بلوچ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے اسکالر رہ چکے ہیں اوربیوٹمز یونیورسٹی کوئٹہ کے پاک اسٹیڈیز ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہےہیں۔
ترجمان نے کہاکہ ایک علمی رہنمائی کرنے والے استاد کو جبرا لاپتہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں تعلیم اور تحقیق کرنے والا ہر شخص ریاستی جبر کے نشانے پر ہے۔یہ واقعہ ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ بلوچستان میں نہ تعلیمی ادارے محفوظ اور نہ ہی اساتذہ اورنا طلبہ محفوظ ہے۔ بلوچ قوم کے فکری اور تعلیمی سرمائے کو اس طرح نشانہ بنانا اس امر کی واضح علامت ہے کہ ریاست علمی اور فکری آزادی کو کچل کرایک خوف زدہ اور خاموش معاشرہ تشکیل دینا چاہتی ہے تاکہ وہ بلوچ قوم کی آسانی سے نسل کُشی کرے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ شناخت کی بنیاد پر بلوچ نوجوان کی ہراسمنٹ ، پروفائلنگ ،جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل ریاستی اداروں کی بلوچ نسل کشی پالیسی کا تسلسل بن چکا ہے جوکہ نہ ہی کوئی نیا عمل ہے اور نہ ہی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ بلوچ طلبہ اور اسکالر ز کی جبری گمشدگیوں کی ایک طویل داستان ہے اوراس تسلسل کا مقصد واضح ہے کہ بلوچ قوم کو زہنی اور فکری طور پر مفلوج کرنا ، نوجوانوں کو خوف اور مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دینا اور بلوچستان کی علمی روشنی کو بجھا دینے کی مترادف ہے۔
ترجمان نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف بین الاقوامی انسانی حقوق کےاصولوں بلکہ ریاست کےاپنے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے اور اگر ڈاکٹر عثمان قاضی بلوچ کوبازیاب نہیں کیا گیا تو ہم تعلیمی اداروں سے لیکر سڑکوں تک احتجاج کا دائرہ بڑھائیں گے ۔ہمارے بینرز ، نعرے اور ہماری جدوجہد ہر جگہ یہ پیغام دینگے کہ تعلیم اور علم کو قید نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس جبر کے خلاف ڈٹے رہیں گے اور اس ناانصافی کے خلاف ہر جگہ اور ہر سطح پر آواز بلند کرینگے ، کیونکہ یہ لڑائی صرف ایک فرد کی آزادی کی نہیں بلکہ ہماری پوری قوم کے مستقبل کی ہے۔