بیوٹمز کے 100 سے زائد اساتذہ کا وائس چانسلر کوای میل، ڈاکٹر عثمان بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پروفیسر قاضی عثمان بلوچ کی جبری گمشدگی پر بیوٹمز کے 100 سے زائد اساتذہ نے وائس چانسلر بیوٹمز کو جاری کئے گئے ایک ای میل میں اپنے ساتھی استاد کی گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔

ای میل میں وائس چانسلر صاحب سے اس مسئلے کو فوری اعلیٰ حکام سے اٹھانے اور ڈاکٹر عثمان کی بازیابی کیلئے کردار ادا کرنے کا کہا گیا۔

بلوچستان میں تعلیمی برادری کا خوف و ہراس بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (بیوٹمز) کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قاضی عثمان اور ان کے بھائی جبران احمد کی 12 اگست 2025 کی آدھی رات کو کوئٹہ میں واقع ان کے گھر سے جبری طور پر گمشدگی نے پورے صوبے میں خاص طور پر تعلیمی حلقوں اور بیوٹمز میں شدید خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا ہے۔

یہ واقعہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کی لہر کا تازہ ترین باب ہے، جہاں طلبہ، اساتذہ، صحافی اور سیاسی کارکنان روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بن رہے ہیں۔ پاانک (پروٹیکشن آف رائٹس ان بلوچستان) اور بلوچ وائس فار جسٹس جیسی تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈاکٹر عثمان قاضی، جو پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں اور بیوٹمز میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے بھائی جبران احمد (جو ایم فل اکنامکس کے طالب علم ہیں) کے ہمراہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے حراست میں لیا گیا۔ ان کے گھر کو سیل کر دیا گیا اور خاندان اور دوستوں کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ واقعہ بلوچستان میں تعلیم اور انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں نہ صرف افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں بلکہ تعلیمی اداروں کی آزادی اور سیکھنے کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہیں۔

یہ وقت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول یونیورسٹی انتظامیہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی برادری، اس مسئلے پر آواز اٹھائیں۔ قاضی عثمان اور جبران احمد کی فوری اور محفوظ بازیابی کے لیے دباؤ بڑھانا ضروری ہے تاکہ بلوچستان میں امن اور انصاف کی بحالی ممکن ہو سکے۔ اگر ایسے واقعات جاری رہے تو یہ نہ صرف تعلیم بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کو روک دیں گے۔ ہم سب کو مل کر عثمان صاحب کے بازیابی اور جبری گمشدگی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور متاثرین کی آواز بننا چاہیے۔

Share This Article