بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ کی مسلسل بندش کو منظم ریاستی سازش اور بلوچستان حکومت کی مجرمانہ شراکت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام باشعور نوجوانوں کو تعلیمی، تحقیقی اور فکری میدان سے محروم رکھنے کی دانستہ کوشش ہے۔
ترجمان نے کہا کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ پانی اور بجلی کی طرح بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ آن لائن کلاسز، تحقیقی مواد تک رسائی، یونیورسٹی پورٹلز پر ایڈمیشن اور امتحانی فارم، اسکالرشپ کے لیے اپلائی، ای لائبریریز اور عالمی سطح پر تعلیمی مقابلے، سب انٹرنیٹ پر منحصر ہیں لیکن بلوچستان میں یہ سہولت بار بار بند کر کے طلبہ کو شعوری طور پر پسماندگی اور جہالت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان کے طلبہ پہلے ہی کئی سنگین مسائل کا شکار ہیں جن میں بیشتر اضلاع میں معیاری تعلیمی ادارے اور لائبریریز موجود ہی نہیں ہیں۔ دور دراز علاقوں میں اساتذہ کی کمی اور تعلیمی انفرا اسٹرکچر کی تباہ حالی عام ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجز میں جدید لیبارٹریز اور تحقیقی سہولیات سرے سے ہی ناپید ہیں۔ طلبہ کو تعلیمی مواد حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ ہی واحد سہارا ہے، جسے بار بار کاٹ دینا ان کا تعلیمی سانس بند کرنے کے مترادف ہے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ وفاقی ادارے اوربلوچستان حکمران دونوں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ وزراءاپنے مراعات اور کرسی بچانے میں مصروف ہیں جبکہ لاکھوں طلبہ اپنے تعلیمی مستقبل کے اندھیروں میں دھکیلے جا رہے ہیں۔ بی ایس او نے خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر انٹرنیٹ بحال نہ کیا گیا تو بلوچستان بھر ساتھی طلبہ تنظیموں کے ساتھ مل کر بھرپور احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ جنگ صرف انٹرنیٹ کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ علم و شعور سمیت بنیادی حقوق کے لیے ہیں۔ بی ایس او طلبہ دشمن اقدامات کے خلاف اپنی جدوجہد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گی۔