آذربائیجان اور آرمینیا کے رہنماؤں نے جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی میزبانی میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات کو ختم کرنے کے لیے امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علییف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے امریکی صدر کی جانب سے اس تقریب کو ’تاریخی‘ قرار دیا۔
صدر ٹرمپ نے معاہدے کے بارے میں کہا کہ ’یہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگا ہے۔ یہ معاہدہ فریقین کے درمیان کچھ اہم ٹرانسپورٹ روٹس کو دوبارہ کھولے گا اورخطے میں امریکی اثر و رسوخ میں اضافہ کرے گا۔‘
یاد رہے کہ سنہ 1980 کی دہائی کے آخر سے دو سابق سوویت ریاستیں نگورنو کاراباخ کے علاقے پر اپنے حق کے دعوے کے لیے لڑتی چلی آ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ آرمینیا اور آذربائیجان نے ’ہمیشہ کے لیے‘ تمام لڑائیاں روکنے کے ساتھ ساتھ سفر، کاروبار اور سفارتی تعلقات کھولنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ پینتیس سال لڑے، اور اب وہ دوست ہیں اور وہ طویل عرصے تک دوست رہیں گے۔‘
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق معاہدے کے ایک حصے کے طور پربین الاقوامی امن اور خوشحالی کے لیے امریکہ ایک بڑے ٹرانزٹ کوریڈور کی تعمیر میں بھی مدد کرے گا جسے ٹرمپ روٹ کا نام دیا جائے گا۔
یہ دونوں ملک جنوبی قفقاز (ساؤتھ کاکیسس) میں بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درمیان مشرقی یورپ اور ایشیا کے ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہیں۔
آذربائیجان کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آرمینیا کی 30 لاکھ آبادی مسیحیوں پر مشتمل ہے۔
سنہ 1923 میں، سوویت یونین نے نگورنو کاراباخ کو جس میں آرمینیائی آبادی کی اکثریت تھی، آذربائیجان جمہوریہ کا ایک خود مختار خطہ بنایا تھا۔ اس خطے کی 150,000 آبادی کی اکثریت اب بھی آرمینیائی ہے۔
سنہ 1988 میں نگورنو کاراباخ میں نسلی آرمینیائی باشندوں نے اس پر آرمینیا کی حکمرانی کے لیے تحریک شروع کی۔ اس نے نسلی کشیدگی کو ہوا دی اور جب سنہ 1991 میں اس خطے نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کیا تو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
اس کے نتیجے میں تقریباً 30,000 ہلاکتیں ہوئیں اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
سنہ 1993 تک آرمینیا نے نگورنو کاراباخ اور آذربائیجان کے آس پاس کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔