بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میرے والد میر بشیراحمد کو 5 اپریل کو جبری لاپتہ کر دیا گیا۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ میرے والد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے انہیں کسی جرم میں گرفتار نہیں کیا بلکہ میری وجہ سے کہ میں بولتی ہوں مزاحمت کرتی ہوں اور حق بات پر خاموشی سے انکار کرتی ہوں۔ اس بنا پر انھیں جبری لاپتہ کیا ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ یہ صرف ایک ذاتی سانحہ نہیں ہے،یہ ہر بلوچ کے لیے ایک ظالمانہ پیغام ہے جو اپنی آواز بلند کرنے کی ہمت کرتا ہے۔ میرا کیس زندہ ثبوت ہے کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ کرنے کے واقعات اتفاقی نہیں بلکہ یہ دانستہ سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کیا جانے والا ہتھیار ہے۔ اس کا مقصد واضح ہے کہ ہمیں توڑا اور الگ تلگ کیا جائے لیکن اس طرح نہ مجھے اور نہ ہم میں سے کسی اور کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ جبری لاپتہ کرنے کو بین الاقوامی سطح پر ایک جرم کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کی بلا جھجک مذمت کیا جانا چاہیے، اور بغیر کسی رعایت کے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ عمل انصاف، انسانیت اور وقار کے ہر اصول کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد اور تمام لاپتہ افراد کی فوری اور بلاشرط رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔ میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں، اور جمہوری حکومتوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنی خاموشی توڑیں۔ بلوچ کی زندگیاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ہمارا دکھ اور تکلیف سیاسی اور مزاحمت جائز ہے۔
گذشتہ شب ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے والد کی باحفاظت بازیابی کےلئے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ #ReleaseMirBashirAhmad کے نام سے ایک کیمپین بھی لانچ کی تھی جس میں اس کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔