انڈین فوج کا پہلگام حملے کے منصوبہ ساز کی ہلاکت کا دعویٰ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

انڈین فوج نے پیر کے روز دعویٰ کیا ہے کہ سرینگر کے ہارون پہاڑی علاقے میں آپریشن مہادیو کے دوران تین مسلح عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

ہارون آپریشن سے متعلق فوج کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران گھنے جنگلوں میں چھپے عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔

واضح رہے کہ پہلگام ہلاکتوں کے لیے انڈیا نے پاکستان میں مقیم مسلح گروپس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور پاکستان پر ان کی پشت پناہی کا الزام لگایا تھا۔ بعد میں چھ اور سات مئی کی درمیانی رات کو انڈیا نے آپریشن سندور کے تحت پاکستان کے اندر نو ایسے مبینہ ’دہشت گرد ٹھکانوں‘ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں انڈین حکومت کے مطابق پہلگام حملے کی سازش رچائی گئی۔

پاکستان نے فوجی ردِعمل میں انڈیا کے چھ جنگی طیارے گرانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم انڈیا نے اس کی تردید کی۔ پیر کے روز پہلگام حملے کے منصوبہ ساز کی ہلاکت کا دعویٰ انڈین پارلیمنٹ میں اس حملے سے متعلق وزیراعظم مودی کے بیان سے چند گھنٹے پہلے کیا گیا۔

انڈیا کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے پہلے تو پہلگام میں جائے واردات بائی سرن کے آس پاس 12 کلومیٹر علاقے کو تحقیقات کا مرکز بنایا تھا، لیکن جمعرات کو یہ دائرہ مزید بڑھایا گیا۔

این آئی اے نے ابھی تک دو ہزار سے زیادہ ایسے کشمیری نوجوانوں سے پوچھ گچھ کی ہے جن کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں عسکریت پسندوں کے اوور گراوٴنڈ ورکرز (بالائے زمین کارکن) ہیں۔

یاد رہے کہ آغاز میں انڈین میڈیا پر شائع کیے گئے پولیس سکیچ کے مطابق یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حملہ ہاشم موسیٰ عرف سلیمان، علی بھائی عرف طلحہ بھائی اور عادل حسین ٹھوکر نے انجام دیا۔ ہاشم اور علی کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں جبکہ عادل حسین ٹھوکر کی شناخت کشمیری کے طور پر کی گئی تھی۔ تحقیقات میں چوتھا نام پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم فاروق احمد عرف فاروق ٹیڑوا کا سامنے آیا ہے۔

این آئی اے کے مطابق وہ اس حملہ کی نگرانی ایل او سی کی دوسری جانب سے کر رہے تھے۔ این آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ فاروق نے حملہ آوروں کو کشمیر میں موجود اپنے او جی ڈبلیو نیٹ ورک کے ساتھ رابطہ میں لایا۔

این آئی اے نے حملے میں زخمی ہونے والے سیاحوں سے پوچھ گچھ کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس جدید ساخت کے ایسے اینکرپٹِڈ فون تھے، جن کے ذریعہ انھوں نے حملے کے بعد پاکستانی ہینڈلرز کے ساتھ رابطہ بھی کیا۔

بعض عینی شاہدین نے این آئی کو بتایا تھا کہ حملہ آوروں نے باڈی کیمرے لگا رکھے تھے اور وہ فائرنگ کے وقت ریکارڈنگ بھی کر رہے تھے، تاہم اس دعوے کی مزید چھان بین کی جا رہی ہے۔

تاہم بعد میں این آئی اے نے کہا تھا کہ جن لوگوں کی تصویریں کشمیر پولیس نے جاری کی تھیں ان میں سے کوئی بھی حملے میں ملوث نہیں تھا۔

مبینہ عسکریت پسندوں کے مسمار کیے گئے گھروں میں عادل حسین ٹھوکر اور فاروق ٹیڑوا کے گھر بھی ہیں۔ گھروں کی مسماری سے متعلق پولیس کا دعویٰ ہے کہ تلاشی مہم کے دوران ان گھروں میں بارودی سرنگیں دیکھی گئیں جنھیں ناکارہ کرتے ہوئے دھماکہ ہوتا تھا اور گھر گر جاتا تھا۔

Share This Article