100 سے زائد بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر خوراک کی کمی سے خبردار کرتے ہوئے بین الاقوامی دُنیا پر زور دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے فوری اقدامات کریں۔
میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف)، سیو دی چلڈرن اور آکسفیم ایک مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے لوگ انتہائی مُشکل حالات سے دوچار ہیں اور اُن کی جانوں کو خطرہ ہے۔
اسرائیل، جو علاقے میں تمام رسد کے داخلے کو کنٹرول کرتا ہے، نے امدادی تنظیموں کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف اور حماس کے حق میں ’پروپیگنڈہ‘ قرار دیا۔
یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غذائی قلت کے نتیجے میں مزید 10 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
وزارت کے مطابق اس طرح اتوار سے اب تک غزہ میں خوراک کی قلت کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے اطلاع دی ہے کہ ہسپتالوں میں لوگ خوراک کی کمی کی وجہ سے شدید بیماری کے عالم میں لائے جا رہے ہیں۔
اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کو امداد کی فراہمی معطل کر دی تھی اور دو ہفتے بعد حماس کے خلاف اپنی فوجی کارروائی دوبارہ شروع کر دی تھی۔ اسرائیلی انتظامیہ کے جانب سے جاری بیان میں ایسا کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مسلح گروہ پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔
اگرچہ تقریباً دو ماہ کے بعد ناکہ بندی میں جزوی طور پر نرمی کی گئی تھی لیکن عالمی ماہرین کی طرف سے قحط کے انتباہ کے باوجود، خوراک، ادویات اور ایندھن کی قلت میں اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹروں نے خاص طور پر بچے اور بزرگ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ خوقار کی کمی کی وجہ سے اسہال جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں، بازار خالی ہیں، فضلے کا ڈھیر لگ رہا ہے اور بالغ افراد بھوک اور پانی کی کمی کی وجہ سے سڑکوں پر گر رہے ہیں۔‘