اداریہ
آزادی کی تحریکوں میں خون کا بہناانتہائی مقدس گردانا جاتا ہے کیونکہ خون بہنے سے ہی تحریکیں اپنی منزل کی جانب کامیابی سے سفر کرتی ہیں۔جوزے مارتی لکھتے ہیں ”جس طرح انسانی جسم کے لئے ہڈیاں، پہیے کے لئے دُھرا، پرندے کے لئے پَراور پروں کے لئے ہوا بنیادی ضرورت ہے۔اسی طرح آزادی زندگی کا عنصر ہے اس کے بغیر ہرچیز نامکمل ہے، آدمی فطری طور پر اس کی طرف کھنچتا ہے اور جہاں یہ نہیں ہوتی،اس فضا سے نفرت کرتا ہے۔“آزادی ایک مقدس دیوی ہے اس کی چاہ تو سبھی کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ہوتے ہیں ان کو پانے کے لئے اپنی زندگی کو ہتھیلی پہ رکھ کر اپنا سب کچھ قربان کر نے کے لئے اس پرکٹھن راستے کا انتخاب اس امیدپر کرتے ہیں کہ وہ غلامانہ زندگی کو ہمیشہ کیلئے مدفن کرکے ایک آزاد و خودمختار زندگی جینے کا لطف اٹھاسکیں جو غلامانہ زندگی میں دور دور تک اس کا وجود نہیں ملتا۔اس مشکل و کٹھن سفر میں بہت سے شوقیہ بھی کھود پڑتے ہیں لیکن حالات کے جبرکا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ واپسی کا راستہ ناپ لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ جو خالص مٹی سے بنے ہوتے ہیں وہ اس سفر میں آخری سانس تک جھڑے ہوتے ہیں۔جیسے ہزاروں بلوچ فرزندان جو آزادی کیلئے اپنی جانوں سے گزر گئے۔بی این ایم کے مرکزی سیکر ٹری جنرل ڈاکٹر منان بھی اس قبیل کے کاروان کا ایک ساتھی تھا جو تمام کٹھن مراحل کے باوجود ثابت قدم رہ کر جام شہادت نوش کرگئے،شہید صبا دشتیاری، شہید غلام محمد، شہید نواب بگٹی، شہید بالاچ سمیت ہزاروں شہدا جنکی قربانیاں بلوچ اور جہد آزادی میں بر سرپیکار جہدکاروں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
تمام بلوچ جووہ اپنی آزادی و خوشحالی کے لئے جدو جہد کر رہے تھے، ریاستی فورسز اور انکی مذہبی و ڈیتھ اسکواڈوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔پاکستانی خفیہ اداروں کی آزادی پسندوں کے خلاف کارروائیاں بڑے تیزی کے ساتھ جاری ہیں۔گذشتہ دنوں بلیدہ میں ریاستی مذہبی دہشت گرداورپراکسی لشکر طیبہ کے ہاتھوں پانچ بلوچ فرزند شکیل بلوچ، ناجد بلوچ،میران بلوچ،دولت رسول، یوسف کرد شہید ہوئے۔اسی طرح درگس بلوچستان میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں میراث بلوچ شہید ہوئے۔
ریاستی بربریت 2020 کے ابتداء سے عروج پر نظر آئی جہاں ایک ماہ کے اندر 67 افراد کو لاپتہ کر کے فوجی کیمپوں میں ڈال دیا گیا۔ آج ہزاروں آزادی کے جہد کارریاستی عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد کا شکار ہیں۔بلوچ فرزندوں کی اغوا،جبری گمشدگیوں اور انکی شہادتوں کے بعد انکے خاندان والوں کی ہمت اور جہد آزادی سے تجدید عہد نے آزادی کی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے،کہنا،سننا اور دیکھنا آسان ہوتاہے کہ ایک ماں اپنی بیٹے کو صرف چار مہینے قبل دلہا بناتا ہے،اپنے ہاتھوں سے سجاتاہے،بہن بھائی خوش سے نہال ہوتے ہیں،خاندان کی خوشیاں دیدنی ہوتی ہیں لیکن ان خوشی و مسرتوں کوچھوڑ چھاڑ کر بیٹا محاذ کا رخ کرتا ہے اور چاہ مہینے کا مختصر وقت ہی گذر جاتاہے کہ وہی بیٹا،وہی خوشی و مسرتوں کو محور و مرکز محاذمیں ہی میں شہادت پاتاہے،اس درد کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس سے گزررہے ہیں،گزرچکے ہیں،محض کہنے،سننے اور دیکھنے سے اس کا اندازہ نہیں کیاجاسکتاہے۔ہاں شہداء کی ماں اس درد کی حدت سے آشنا ہوتے ہیں اور ہمیں یہی کچھ جھاؤ میں دیکھنے کو ملا،بلیدہ میں شہادت کی تاج سرپہ سجانے والے ناجد جان کی بہادری بی بی زیبا بلوچ ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہیں،حوصلوں کی نئی بلندی عطا کرتی ہیں،بہادر ماؤں کی تاریخ میں ایک نئی اضافہ کرتی ہیں۔
بی بی زیبا بلوچ کی نوجوان اور دلہا بیٹے ناجد جان کے شہادت پر بلوچ قوم کے نام ویڈیو پیغام آتا ہے کہ وہ پوری قوم کو اپنے بیٹے اور ساتھیوں کی شہادت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج نہ غمزدہ ہوں اورنہ پریشان۔۔۔بلکہ میں سمجھتی ہوں جنگ آزادی میں شہادت لازمی ہوتاہے،میرا صرف ایک بیٹا شہید ہواہے،میری چار بیٹے اور دوبیٹیاں سرزمین کو جب ضرورت پڑی،قربان کرتی ہوں۔
تاریخ کا مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ ایسی مائیں قوموں کو توانا کرتی ہیں،قومی حوصلوں کو قوت پروازعطاکرتی ہیں اور تحریکوں کو ایندھن فراہم کرتی ہیں،اور ایسی ہی ماؤں نے اس تحریک کو زندہ و مستحکم رکھ کر اسے تسلسل بخشی ہے۔
عظیم ہیں وہ لوگ جو اپنی سرزمین کی آزادی کیلئے بر سر پیکار ہیں
Leave a Comment
Leave a Comment