تربت: اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی کے اہلخانہ کی پریس کانفرنس، بی ایل ایف سے رہائی کی اپیل

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے پریس کلب میں اسسٹنٹ کمشنر تمپ محمد حنیف نورزئی کی رہائی کے لیے ان کے بھائی گلداد نورزئی اور اہلِ خانہ نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر، سیاسی جماعتوں، قبائلی عمائدین، علماء کرام اور صحافی برادری سے مدد اور تعاون کی اپیل کی ہے۔

واضع رہے کہ اسسٹنٹ کمشنر تمپ حنیف نورزئی گذشتہ ایک مہینے سے بلوچستان کی آزادی کے لئے سرگرم مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) کے تحویل میں ہیں ۔اور تنظیم کے ترجمان میجر گھرام بلوچ کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو تفتیش کے لیے تنظیم کی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تنظیم تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اپنے فیصلے کا باقاعدہ اعلان کرے گی۔

بعد ازاں بی ایل ایف کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنرکی ایک مختصر ویڈیو بھی جاری کی گئی ۔جس میں حنیف نورزئی نے بتایا کہ بی ایل ایف نے ان کی اہلیہ کو عزت و احترام کے ساتھ رہا کر دیا تھا۔

ویڈیو میں وہ ٹھیک حالت میں دکھائی دیے تاہم ان کی رہائی کے حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔اور نہ ہی تاحال بی ایل ایف کی جانب سے محمد حنیف نورزئی کے اغواء کے حوالے سے کسی قسم کے مطالبات یا شرائط سامنے نہیں آ ئے ہیں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گلداد نورزئی نے بتایا کہ 4 جون 2025 کو اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی اپنی فیملی کے ہمراہ تمپ سے کوئٹہ گھر جاتے ہوئے نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں اغواء ہو گئے تھے۔ اغواء کاروں نے ان کی فیملی کو رہا کر دیا تھا جبکہ محمد حنیف نورزئی تاحال لاپتہ ہیں اور اغواء کاروں کی حراست میں ہیں۔ اس واقعے کے بعد پورا خاندان شدید ذہنی اذیت اور پریشانی کا شکار ہے۔

گلداد نورزئی نے کہا کہ محمد حنیف نورزئی ایک ایماندار، فرض شناس اور عوام دوست سرکاری افسر ہیں جنہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران عوامی خدمت کو ہمیشہ اولین ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بغیر کسی بڑے سیکیورٹی پروٹوکول کے صرف ایک محافظ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔

اہلِ خانہ نے بی ایل ایف سے انسانیت، روایتی بلوچی اقدار اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد حنیف نورزئی کو جلد از جلد اور باحفاظت رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔ ساتھ ہی تمام سیاسی، قبائلی، مذہبی اور سماجی شخصیات سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے میں کردار ادا کریں تاکہ ایک بے گناہ خاندان کی اذیت کا خاتمہ ہو سکے۔

Share This Article