ایران نے چین کیساتھ منصوبے کے بعد بھارت کو چاہ بہار منصوبے سے الگ کردیا

0
366

چایرانی حکومت نے چاہ بہار بندرگاہ سے زاہدان تک ریلوے منصوبے کو خود سے تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

واضح رہے کہ افغانستان کی سرحد سے متصل اس منصوبے کے لیے ایران نے نئی دہلی سے 4 سال قبل معاہدہ کیا تھا۔

ایرانی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ 628 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تعمیر کے اس منصوبے کے لیے بھارت کی جانب سے فنڈز میں تاخیر، اسے کروڑوں ڈالر کے اس منصوبے سے الگ کرنے کی وجہ بنی۔

بھارتی خبر رساں ادارے دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق ایران، بھارت سے مالی معاونت پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ایرانی نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ میں سے 40 کروڑ ڈالر اس منصوبے کے لیے استعمال کرے گا۔

ریلوے منصوبہ، جسے مارچ 2022 تک مکمل ہونا ہے، کے تحت پٹری لگانے کے مرحلے کا ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی نے گزشتہ ہفتے افتتاح کیا تھا۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب چین، ایران سے 400 ارب ڈالر کے اسٹریٹجک شراکت داری کے منصوبے کو حتمی شکل دے رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ امور اور بھارتی ریلوے کنسٹرکشنز لمیٹڈ (ارکون) نے معاملے پر رائے دینے سے انکار کردیا۔

تاہم جب سوال کیا گیا کہ کیا مفاہمتی یادداشت منسوخ ہوگئی ہے کیونکہ منصوبہ اس کے بغیر ہی شروع ہوگیا ہے تو بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ ‘بھارت اس میں بعد میں بھی شمولیت اختیار کرسکتا ہے’۔

ایرانی ریلویز اور بھارت کی سرکاری کمپنی ارکون کے درمیان یہ ریلوے منصوبہ بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک کا متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے تھا۔

مئی 2016 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایرانی صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ چاہ بہار معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تہران گئے تھے جہاں ارکون نے ایرانی وزارت ریلوے کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

مفاہمتی یادداشت کا مقصد ‘چاہ بہار سے زاہدان تک ریلوے لائنز کی تعمیر تھا جو بھارت، ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی معاہدے میں راہداری اور ٹرانسپورٹ راہداری کے حصے کے طور پر تعمیر ہونا تھا’۔

ارکون نے اس منصوبے کے لیے تمام خدمات، سپر اسٹرکچر کام اور مالی اعانت (تقریبا ایک ارب 60 کروڑ ڈالر) فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم ، ارکون انجینئرز کے سائٹ کے متعدد دورے اور ایرانی ریلوے کی تیاریوں کے باوجود بھارت نے کبھی بھی اس کام کا آغاز نہیں کیا جو بظاہر امریکی پابندیوں کے خدشے کے سبب تھا۔

امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت پہلے ہی ایران سے اپنے تیل کی درآمد کو ختم کر چکا ہے۔

ایران کی اس بندرگارہ کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں تعمیر کیا جانا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here