غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ’’ماہ جبین‘‘ | ڈاکٹرجلال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیوں، بے آب و گیاہ صحراؤں، اور دشمن کی جارحیت سے ویران بستیوں میں درد، جدائی، محرومی اور مزاحمت کی وہ داستانیں بکھری پڑی ہیں جنہیں اگر لفظوں کا قالب دیا جائے تو روح تک کانپ اٹھے۔ انہی داستانوں میں ایک تازہ، کربناک اور جگرخراش باب کا اضافہ ہوا ہے۔۔۔ ایک معصوم، معذور اور تعلیم یافتہ بلوچ بیٹی "ماہ جبین بلوچ” کی صورت میں، جو بلوچستان یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور جسے ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سول ہسپتال کوئٹہ جیسے عوامی مقام سے اغوا کر لیا۔

یہ محض ایک فرد کی گمشدگی نہیں، بلکہ پورے بلوچ سماج، اس کی اجتماعی عزتِ نفس، اور اس کے بنیادی انسانی حق پر حملہ ہے۔ ماہ جبین، جو بچپن سے پولیو کے باعث ایک پاؤں سے معذور ہے، اور جس نے تمام جسمانی رکاوٹوں اور ریاستی جارحیت کے باوجود علم کی جستجو کا سفر جاری رکھا، اُس کا یوں بے رحمانہ اغوا گویا ہر اس بیٹی کے لیے ایک پیغام ہے جو خواب دیکھتی ہے، جو سوال اٹھاتی ہے، جو تبدیلی کا ارادہ رکھتی ہے، جو نئی صبح کی نوید بننا چاہتی ہے۔

بلوچستان میں ریاستی جبر کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ایسے سینکڑوں المیے بلوچ قومی یادداشت میں محفوظ ہیں، مگر ہر نیا واقعہ ایک نئے زخم، ایک نئی چیخ، اور ایک نئے احتجاج کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ ماہ جبین کی کہانی اس لیے بھی دل دہلا دینے والی ہے کہ وہ نہ صرف ایک معذور طالبہ ہے بلکہ علم و شعور کی نمائندہ بھی ہے۔ وہ ایک ایسی بیٹی ہے جس کے خوابوں میں علم کا نور تھا، مگر اس چنگیزی ریاست نے اسے ان کال کوٹھڑیوں کے حوالے کر دیا جن کی سیاہی میں انسانیت گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے۔ وہ زندان جن میں ڈھائے جانے والے مظالم کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔

اگر یہ ہماری اپنی ریاست ہوتی، تو وہ ماں بن کر اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی۔ مگر جب کوئی قوم محکوم بن جائے، تو اس کے بیٹے، بیٹیاں دشمن کی اذیت گاہوں کا ایندھن بن جایا کرتے ہیں۔ غیروں کے لیے مقامیوں کی زندگی بے قیمت ہوتی ہے۔ وہ ظلم کرتے ہوئے نہ جنس دیکھتے ہیں، نہ عمر، نہ معذوری۔۔۔ جیسے بیوس، بیبرگ جان اور ماہ جبین کی معذوری کو بھی کوئی رعایت نہ دی گئی۔ گویا ظلم کو کوئی سرحد، کوئی اخلاقی حد، اور کوئی انسانی احساس چھو کر نہیں گزرتا۔

ماہ جبین کا جرم کیا ہے؟ کیا وہ صرف تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کیا وہ اپنی شناخت کے ساتھ جینا چاہتی ہے؟ کیا اس نے ظلم کے خلاف سوچنے کی جسارت کی؟ آزاد معاشروں میں ایسی سوچ کو ترقی کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے، مگر غلام اقوام میں یہی سوچ جرم بن جاتی ہے۔ ہمیں علم ہے کہ پاکستان جیسی غیر فطری ریاست کے لیے ایسے جرائم کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے: اگر یہی جرم ہیں تو پھر بلوچستان کا ہر باشعور فرد مجرم ہے۔ اور اگر پاکستان کے ان مظالم پر دنیا خاموش رہی، تو انسانیت اپنی موت آپ مر چکی ہے۔

ماہ جبین وہی بیٹی ہے جو کبھی اپنے اغوا شدہ بھائی یونس جان کی تصویر اٹھا کر پکارا کرتی تھی۔۔۔ آج وہ خود تصویر بن چکی ہے۔ اب یہ کہانی ہر گھر کی کہانی ہے، جہاں مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سالہا سال سے لاپتہ پیاروں کی راہ تک رہی ہیں۔ ان کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں، دعائیں لبوں پر منجمد ہو چکی ہیں، اور ذہن بے حسی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود چند ضمیر فروش اب بھی قوم پرستی کے نام پر اسی جابر نظام کو سہارا دے رہے ہیں۔ ان سے سوال ہے: اگر اب بیٹیاں بھی محفوظ نہیں، تو تمہاری امید کس پر باقی رہے گی؟ اگر ماہ جبین جیسی معذور طالبہ بھی ظلم سے محفوظ نہ رہی، تو کون محفوظ ہے؟ کیا ان دلخراش مناظر کے بعد بھی تم پاکستانی ایوانوں کو استحکام بخشنے کی جدوجہد کرو گے؟

ہاں، شاید۔۔۔ نہیں، بلکہ یقیناً! تم دشمن کے ساتھ شریکِ جرم ہو چکے ہو۔ یہ اب تمہاری فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔

یہ اب کسی سے چھپا نہیں کہ بلوچستان کو پاکستانی تسلط کے بعد ہمیشہ ایک نوآبادیاتی ذہنیت سے قابو میں رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ایک ایسا خطہ جس کے وسائل پر قبضہ ہے، مگر آواز پر پابندی۔ جہاں تعلیم یافتہ افراد، شاعر، ادیب، طالبعلم، اور باہمت خواتین کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ماہ جبین بلوچ کا اغوا اسی استبدادی پالیسی کا تسلسل ہے۔

آہ بلوچستان! تیرے بیٹوں اور بیٹیوں کو انصاف کے نام پر جبر، امن کے نام پر لاشیں، اور ترقی کے نام پر تباہی ملی۔ یہاں وہ لوگ جو سوال اٹھاتے ہیں، جو جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، انہیں یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر زندہ لاپتہ کر کے اذیت خانوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ آٹھ دہائیوں سے ان زخموں پر کوئی مرہم اثر نہیں کرتا، کیونکہ وہ اب ناسور بن چکے ہیں۔

آج جب ماہ جبین کسی خفیہ عقوبت خانے میں قید ہے، تو درحقیقت وہ اکیلی نہیں، بلوچستان کی ہر بیٹی، ہر ماں، ہر طالبہ اور ہر وہ فرد جو وطن کے خواب دیکھتا ہے، اس قید کا حصہ بن چکا ہے۔ ان خاموش چہروں سے جو صدائیں نکلتی ہیں، وہ زمین کی سماعت پر سوال بن کر گونجتی ہیں۔ آخر کب تک؟ کب تک بلوچ پر ظلم و جبر کا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔ ہر طرف سے ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ کیونکہ ماہ جبین محض ایک نام نہیں، وہ ایک استعارہ ہے۔۔۔ بلوچ خواتین کی عظمت، ان کی جرات، ان کے زخموں اور ان کے خوابوں کا استعارہ۔

آؤ! ثابت کریں کہ ہم ہر دور میں، ہر ظلم کے خلاف نصیر خان، چاکر، گہرام، بیبو اور گل بی بی کا وارث جذبہ رکھتے ہیں۔۔۔ ایسا جذبہ جو غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالے، جو فرعونی نظام کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے، اور جو مظلوم کی آنکھوں میں امید کی کرن بن کر ابھرے۔ یہی جذبہ، یہی حوصلہ، یہی جرات ہے جو ہمیں ایک دن اس منزل تک لے جائے گی، جہاں کبھی کسی ماہ جبین کا نوحہ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

٭٭٭

Share This Article