بلوچستان میں ایک اور چراغ گل کر دیا گیا۔ ایک اور قلم خاموش کر دیا گیا۔ مشکے، آواران سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی لطیف بلوچ کو 24 مئی کی رات اس وقت فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا، جب وہ اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے۔
لطیف بلوچ ایک فرد نہیں تھے، وہ اس ویران سرزمین میں ایک چلتا پھرتا دستاویزاتی حوالہ تھے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے تک انہوں نے روزنامہ انتخاب کے لیے قلم سنبھالا، اور بلوچستان کے زخموں کو سچائی کی روشنائی سے لکھا۔ وہ ان آوازوں میں سے تھے جو نہ دبائے جا سکے، نہ خریدے جا سکے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ پہلے باپ تھے، جن کا بیٹا سیف بلوچ چند ماہ قبل 28 فروری کو ایک ہی خاندان کے دیگر سات نوجوانوں کے ساتھ بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اور اب وہ خود اسی خاموشی کی نذر کر دیے گئے، جس کے خلاف وہ لڑ رہے تھے۔
لطیف بلوچ کا قتل صرف ایک انسان کا قتل نہیں، یہ صحافت، سچائی اور عوام کے حقِ اظہار کا قتل ہے۔ بلوچستان میں صحافیوں کے لیے حالات پہلے ہی کسی میدانِ جنگ سے کم نہیں۔ انہیں نہ تحفظ حاصل ہے، نہ انصاف، اور نہ ہی آواز اٹھانے کی اجازت۔
ایسا لگتا ہے جیسے بلوچستان کو پاکستان کے میڈیا کے منظرنامے سے دانستہ طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔
لطیف بلوچ کے جنازے میں صرف ان کے لواحقین نہیں روئے، صحافت بھی روئی، سچ بھی رویا، اور وہ کاغذ کے صفحے بھی جن پر انہوں نے حق کے الفاظ تحریر کیے۔
سوال یہ نہیں کہ قاتل کون تھا؟ سوال یہ ہے کہ سچ بولنے کی سزا کب تک موت ہی رہے گی؟
لطیف بلوچ ہم میں نہیں رہے، مگر ان کا لکھا ہوا، ان کی جدوجہد، اور ان کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
وہ صحافی نہیں، بلوچستان کا حافظِ تاریخ تھے، اور تاریخ کے محافظ کبھی نہیں مرتے۔
آج صبح جب فون کی گھنٹی بجی، تو دل دہل گیا۔ آواز کانوں سے نہیں، دل سے ٹکرائی:
"لطیف بلوچ نہیں رہے، انہیں مار دیا گیا…”
یہ فون کسی اور کا نہیں تھا یہ معروف صحافی سعید جان بلوچ کا تھا۔ ان کی موت خبر سنی تو میری آنکھوں کے سامنے وہ چہرہ گھوم گیا، جو ہمیشہ مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتا تھا۔ وہ نرم لہجہ، وہ گرمجوش مصافحہ، اور وہ خالص دوستی۔ آج ہمیشہ کے لیے چھن گئی۔
لطیف بلوچ میرے لیے صرف ایک دوست نہیں تھے، وہ ایک ساتھی، ایک مشیر، ایک بھائی تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، وہ گلے لگ کر ایسے ملتے جیسے برسوں کی جدائی ختم ہوئی ہو۔ ان کی باتوں میں کبھی تلخی نہیں ہوتی تھی، حالانکہ وہ بلوچستان جیسے دکھ سے بھرے خطے کی رپورٹنگ کرتے تھے۔
ان کی صحافت میں مزاحمت تھی، مگر شخصیت میں عاجزی۔
ان کے لہجے میں سوال تھا، مگر لہجے کی چاشنی میں عزت تھی۔
مجھے یاد ہے، ہم جب بھی بلوچستان کی بلیک آؤٹ شدہ خبروں پر بات کرتے، وہ ہمیشہ کہتے: "ہم لکھتے رہیں گے… جب تک ایک بھی لفظ باقی ہے”
آج وہ قلم تو شاید گر گیا ہو، مگر لفظ ابھی باقی ہیں۔
ستم یہ ہے کہ چند ماہ پہلے ان کے جواں سال بیٹے سیف بلوچ کو بھی مار دیا گیا۔ وہ زخم ابھی تازہ تھے کہ اب لطیف بلوچ کو بھی خاموش کر دیا گیا۔
یہ صرف ایک شخص کا قتل نہیں، یہ صحافت کا قتل ہے۔ وہ صحافت جو سچ بولتی ہے، جو جبر کے خلاف لکھتی ہے، جو لاپتہ افراد کے ناموں کو زندہ رکھتی ہے۔
لطیف بلوچ جیسے لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا جانا صرف ان کے خاندان کا نقصان نہیں، ہم سب کا نقصان ہے۔
اب مشکے کی خاموش فضا میں ان کی آواز گونجے گی، ان کا قہقہہ نہیں۔ صرف چیخیں سنائی دیں گی۔
لطیف، تم ہمیں یوں چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔
تم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم بلوچستان کی کہانی مکمل کریں گے۔
اب ہم تنہا ہیں، مگر تمہارا نام، تمہارا کام، اور تمہاری محبت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔
سلام اے شہیدِ قلم!
٭٭٭