پاکستانی حکام کا بیرون ملک صحافیوں کو دھمکانا تشویشناک ہے، صحافتی تنظیم

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآو¿ٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بیرون ملک مقیم چھ صحافیوں سے متعلق پاکستان کے سکیورٹی حکام کے ایک ‘خفیہ مراسلے‘ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں آر ایس ایف نے کہا کہ وزارت داخلہ کا یہ ‘خفیہ میمو‘ اٹھارہ جون کو تحریر کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس مراسلے میں یورپ اور امریکا میں مقیم ایک افغان اور پانچ پاکستانی صحافیوں کی مبینہ ”پاکستان مخالف سرگرمیوں“ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔

ان چھ افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی میڈیا میں ”ریاست مخالف مواد“ شائع کراتے ہیں، اس لیے ”ان کی نقل و حرکت، ان کے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس پر سختی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔“ مراسلے میں یہ مزید ہدایات ہیں کہ، ”ان سے باضابطہ طور پر رابطہ کر کے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کے خلاف باتیں کرنا بند کر دیں۔“ آر ایس ایف نے سکیورٹی کی خاطر چھ صحافیوں کے نام جاری نہیں کیے ہیں۔

آر ایس ایف کے مطابق یہ میمو پانچ اعلیٰ شخصیات کے لیے تھا، جن میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر، وزارت اطلاعات میں وزیراعظم کے معاون خصوصی، ڈی جی ملٹری انٹیلی جس اور وزارت خارجہ شامل ہیں۔

اس حوالے سے آئی ایس پی آر کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موقف نہیں آیا۔ پاکستانی حکام ماضی میں ایسے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔

آر ایس ایف کے مطابق یہ میمو سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا اور بظاہر یہ ڈرافٹ دستاویز ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ مراسلہ کس نے یا کیوں لیک کیا؟

https://twitter.com/RSF_inter/status/1280860713460908032

ایک بیان میں تنظیم کے ایشیا پسیفک خطے کے انچارج ڈینیئل بیسٹرڈ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دستاویز پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خود ہی لیک کیا ہو تاکہ صحافیوں کو ڈرایا اور ان کے حوالے سے رائے عامہ کو خراب کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ کوئی باقاعدہ سرکاری میمو نہیں ہے تو بھی صحافیوں سے رابطہ کرنے والی بات انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا، ”اس مراسلے میں جن صحافیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، تنظیم ان کے تحفظ پر نگاہ رکھے گی اور اگر انہیں یا ان کے گھر والوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی تو ہمیں پتہ ہو گا کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی۔“

واضع رہے کہ ان 5پاکستانی صحافیوں میں ایک بلوچ بھی شامل ہے جو ناروے میں مقیم ہے ۔جبکہ سویڈن میں مقیم بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر ساجد حسین بلوچ کا قتل بھی اسی کا تسلسل قرار دیا جارہا ہے ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ بلوچستان میں صحافی بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں اب تک 44صحافی اپنی پیشہ وارانہ کام کے دوران قتل کردیئے جبکہ بعض صحافی اس صورتحال کے پیش نظر بیرون ملک منتقل ہوگئے لیکن وہاں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment